﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
"اللهُم أكّفنا شَر لُطفاء المظهر، خُبثاء النّوايا"
اللہ ہمیں ایسے لوگوں کی شر سے بچاۓ جو ظاہراً مہربان لیکن نیت کے خبیث ہوں۔
آمین
کے مطابق بنایا جائے*
📚 مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال نقل كيا گيا ہے:
ايك نوجوان لڑكى كے ابرو كے بال بہت زيادہ گھنے ہيں، تقريبا كريہ المنظر نظر آتى ہے، تو كيا يہ لڑكى كچھ بال مونڈ لے تا كہ دونوں ابرؤوں كے مابين فاصلہ ہو اور باقى كو ہلكا كر لے تا كہ اپنے خاوند كے ليے ديكھنے ميں اچھى اور بہتر نظر آئے ؟
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابرو کے بال اگر نوچ کر ہلکے کئے جائیں تو یہ حرام ہے، بلکہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ ابرو کے بالوں کو نوچنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
لیکن جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ابرو بہت ہی زیادہ لمبے ہوں کہ آنکھوں کے آگے آ جائیں، اور دیکھنے میں رکاوٹ بنیں تو پھر بقدر ضرورت انہیں تراشا جا سکتا ہے" انتہی
(مجموع فتاوى ابن عثیمین_11/133)
اپنی بیویوں کو اللہ کی نافرمانی کرنے کا حکم نہ دیں ۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
(علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی °
ابو بکر زید ° صالح فوزان ° عبد العزيز آل الشيخ ° عبداللہ بن غدیان ° عبدالرزاق عفیفی ° عبداللہ ابنِ باز )
ديكھيں:
( فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء )
*ابرو کے بال نوچنا حرام ہے، لیکن اس میں سے ابرو کے وہ بال مستثنی ہونگے جن کی وجہ سے آنکھوں کو تکلیف ہو ، یا حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں، یعنی اتنے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں کہ دکھنے میں عجیب لگے اور عورت کیلئے شرمندگی کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں ابرو تراش کر عام لوگوں کے مطابق بنائے جائیں گے؛ کیونکہ ایسی صورت حال میں ابرو کو اس لیے تراشا جا رہا ہے کہ ابرو اذیت کا باعث نہ بنیں، اور یہ اسی وقت ہوگا جب انہیں معمول کے
کہ: لَعَنَ اللّٰہُ النَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصاتِ..
صحیح بخاری حدیث 4886.
صحیح مسلم حدیث 2125.
اللہ تعالی کی لعنت ہے اس عورت پر جو اپنے ابرو بناتى ہے اور دوسروں کے ابرو بنواتى ہے ۔
اور نامصہ اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے ابرو کے بال خود بناتی ہے ، اور متنمصة اس عورت کو کہتے ہیں ، جو دوسروں سے اپنے ابرو کے بال بنواتی ہے ، اور ابرو کے بال بنانا سنگھار نہیں ہے ، بلکہ یہ تو اللہ کی خلقت میں بگاڑ اور تبدیلی پیدا کرنا ہے ، اور جب کسی عورت کو اس کے شوہر نے ابرو کے بال بنانے کا حکم کیا ہو ، تو اس عورت کو اپنے شوہر کی اس حکم میں اطاعت کرنا جائز نہیں ہے، اسلئے کہ یہ ایک گناہ و نافرمانی ہے ، اور ربِ خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت کرنا درست نہیں ہے ، اور شوہروں پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اور اپنی
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 195 )
*ان احادیث اور ان میں استعمال ہونے والے عربی الفاظ کی محدثین کرام اور علمائے کرام نے جو وضاحت کی ہے اس سے یہ سمجھ آئی کہ "النمص" کا لفظ ابرو کے بالوں پر ہی بولا جاتا ہے،اس لیے چہرے کے باقی بالوں کو النمص میں شامل کرنا درست نہیں*
📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ:
ابرو کے بال بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور خاصکر وہ عورت جو اپنے شوہر یا منگیتر کےلئے سنورنا چاہتی ہے، اور شوہر یا منگیتر نے اس سے ابرو بنانے کا مطالبہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن وہ خود اپنے آپ کو سنوارنا چاہتی ہو؟
جواب :
عورت کےلئے اپنے ابرو کے بالوں کا کچھ حصہ کاٹ کر یا نوچکر یا منڈوا کر نکالنا جائز نہیں ہے ،
اسلئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ:
اور النامصۃ: وہ عورت ہے جو بال اكھيڑے.
اور النماص: موچنے وغيرہ سے چہرے كے بال اكھيڑنے كو كہا جاتا ہے، اور اسى ليے المنقاش يعنى موچنے كو منماص بھى كہا جاتا ہے.
اور ايك قول يہ ہے كہ: النماص ابرو كو باريك كرنے يا برابر كرنے كے ليے ابرو كے بال زائل كرنے كو النماص كہتے ہيں.
سنن ابو داود ميں ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: النامصۃ: وہ عورت ہے جو ابرو كے بال نوچے حتى كہ وہ باريک ہو جائيں.
(ديكھيں: فتح البارى _10 / 377 )
📚اور سعودی مستقل فتوى كميٹى نے بھی يہى قول اختيار كيا ہے،
جيسا كہ مندرجہ بالا فتوى سے بھى ظاہر ہوتا ہے.
كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
النمص ابرو كے بالوں كو اتارنا نمص كہلاتا ہے، اور يہ جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابرو كے بال نوچنے والى اور جس كے بال نوچے جائيں اس پر لعنت فرمائى ہے.
واصلة» اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کے بال میں بال جوڑے، اور «مستوصلة» اسے کہتے ہیں جو ایسا کروائے،
اور «نامصة» وہ عورت ہے جو ابرو کے بال اکھیڑ کر باریک کرے، اور«متنمصة» وہ ہے جو ایسا کروائے،
اور «واشمة» وہ عورت ہے جو چہرہ میں سرمہ یا سیاہی سے خال ( تل ) بنائے، اور «مستوشمة» وہ ہے جو ایسا کروائے۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_4170)
📚اور صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " النمص " كے معنى ميں كہتے ہيں:
" المتنمصات: متنمصۃ كى جمع ہے.
اور ابن الجوزى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: منتمصۃ نون سے قبل ميم يہ الٹ اور مقلوب ہے، اور المتنمصۃ وہ عورت ہے جو نمص يعنى ابرو كے بال اكھيڑنا طلب كرے.
لُعِنَتِ الْوَاصِلَةُ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ وَالنَّامِصَةُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ وَالْوَاشِمَةُ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ مِنْ غَيْرِ دَاءٍ ،
قَالَ أَبُو دَاوُد: وَتَفْسِيرُ الْوَاصِلَةِ الَّتِي تَصِلُ الشَّعْرَ بِشَعْرِ النِّسَاءِ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالنَّامِصَةُ الَّتِي تَنْقُشُ الْحَاجِبَ حَتَّى تُرِقَّهُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالْوَاشِمَةُ الَّتِي تَجْعَلُ الْخِيلَانَ فِي وَجْهِهَا بِكُحْلٍ أَوْ مِدَادٍ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا.
ملعون قرار دی گئی ہے بال جوڑنے والی، اور جڑوانے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی، اور بغیر کسی بیماری کے گودنے لگانے والی اور گودنے لگوانے والی
امام ابو داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ابرو کے بال اُکھیڑنے کو عربی زبان میں ''النمص'' کہتے ہیں.اور ابرو کے علاوہ چہرے کے دیگر بالوں کا نمص میں داخل ہونے کے سلسلے میں بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ: چہرے كے کسی حصے سے بھی بال اتارنا النمص ہی ہے، يہ صرف ابرو كے بالوں كے ساتھ ہى خاص نہيں.جبکہ ہمارے علم کے مطابق خاص كر ابرو كے بال نوچنا ہى النمص كہلاتا ہے*
جیسا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ حدیث لکھنے کے بعد اسکی خود وضاحت کرتے ہیں،
حدیث ملاحظہ ہو۔۔۔!
📚 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں!
گر تو نے واقعتا پڑھا ہوتا تمہيں ضرور مل جاتا، كيا تو نے اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان نہيں پڑھا:
اور جو كچھ تمہيں رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ديں، تم اسے لے ليا كرو، اور جس سے منع كريں اس سے رک جايا كرو
( سورہ الحشر_ 7 )
تو وہ عورت كہنے لگى: كيوں نہيں ميں نے يہ فرمان پڑھا ہے،
تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے.
وہ كہنے لگى: ميرے خيال ميں تيرے گھر والياں بھى يہ كام كرتى ہيں.
تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: جاؤ جا كر ديكھ لو، تو وہ عورت ان كےگھر گئى اور اسے اس طرح كى كوئى چيز نظر نہ آئى.
عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہما فرمانے لگے: اگر ايسا معاملہ ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ رہ نہيں سكتى تھى "
(صحیح مسلم کتاب الباس،2125)
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 4886)
تو وہ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آ كر كہنے لگى:
آپ نے ايسى ايسى عورتوں پر لعنت كى ہے ؟
تو وہ فرمانے لگے:مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے، اور جو كتاب اللہ ميں بھى ہے ؟تو وہ عورت كہنے لگى:ميں تو دو تختيوں كے درميان سارا قرآن مجيد پڑھا ہے، اور جو كچھ آپ كہہ رہے ہيں مجھے تو وہ نہيں ملا.
عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
اگر تو نے واقعتا پڑھا ہوتا تمہيں ضرور مل جاتا، كيا تو نے اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان نہيں پڑھا:
اور جو كچھ تمہيں رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ديں، تم اسے لے ليا كرو، اور جس سے منع كريں اس سے رک جايا كرو
( سورہ الحشر_ 7 )
تو وہ عورت كہنے لگى: كيوں نہيں ميں نے يہ فرمان پڑھا ہے،
تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی ابرو کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اللہ کی بناوٹ ( تخلیق ) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر،
(سنن ترمذی، حدیث نمبر،2782)
مزید ایک روایت میں
📚عبداللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ
" اللہ تعالى جسم گودنے، اور جسم گدوانے، اور ابرو كے بال اكھيڑنے اور اکھڑوانے والی، اور خوبصورتى كے ليے دانتوں كو رگڑ كر ان ميں فاصلہ كرنے اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے واليوں پر لعنت كرے "
جب يہ بات بنو اسد كى ايک عورت ام يعقوب تک پہنچی تو وہ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ
سوال: خواتین کے لیے ابرو کے بالوں کی کانٹ چھانٹ کا کیا حکم ہے؟ اگر شوہر ابرو بنانے کا حکم دے تو بیوی کیا کرے؟ نیز کیا خواتین چہرے یا پنڈلیوں کے بال اتار سکتی ہیں؟
جواب:
الحمدللہ:
*عورت کو محض زیب و زینت کے لیے ابرو/بھنویں کے بال بنوانا ،کٹوانا وغیرہ جائز نہیں اور یہ حکم سب عورتوں کے لے ہے،جو عورت شرعی پردہ کرے، اس کے لیے بھی یہی حکم ہے ،اور جو نہ کرے اس کے لئے بھی یہی حکم ہے،خاوند اجازت دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،بہرحال عورت کے لیے بھنویں بنانا جائز نہیں،عورت پر خاوند کے لیے چہرے کا بناؤ سنگھار شرعی حدود میں رہتے ہوئے ضروری ہے ، مگر زیب و زینت میں خلاف شرع کام کی اجازت نہیں ہے*
📚 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ
ساری عورتیں خوبصورت مگرحسین ترین وہ عورت ہے جسےصرف اس کامحرم دیکھےاورجولڑکی اللہ کی بات مانتی ہے اللہ اسے کبھی ٹھوکرنہیں لگنے دیتاعورت کی کل کائنات اس کی پاکیزگی اور حیاءہےاوراسلام کی شہزادیاں تو پردے میں ہی اچھی لگتی ہیں حیاہی عورت کی اصل زینت ہے ایمان والی عورت کااصلی زیور سوناچاندی نہیں بلکہ پردہ اور حیاہےپردہ عورت کی عزت وآبروکاضامن ہےاس کی تعظیم توفرشتے بھی کیاکرتے ہیں جوبیٹی حیاءکی چادر اوڑھ لےمگرافسوس یورپ کی مسلمان عورتیں باپردہ رہنے کہ لیےلڑرہی ہیں مسلمان ممالک کی عورتیں حیاءکی چادر پھینکنےکہ لیے لڑرہی ہیں پردہ تو مسلمان عورت کہ لیے اللہ کاتحفہ ہے
❤👑❤
جب شوہر پیٹ بھرنے والا اور عزت کرنے والا ہو تو محبت لازمی ہو جاتی ہے۔۔۔
💯 *آپ نہیں جانتیں کہ کون بہترین ہے۔۔۔ اللہ جانتا ہے ۔۔۔ اس لیئے رب کے فیصلوں پہ سر جھکائیں۔۔۔ دل کے آگے نہیں*۔۔۔
ورنہ
💔 یہ دل آپ کو رلانے اور خوار کرنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا....!!!!
🔥🔥🔥🔥🔥
*نکاح کو آسان کیجئے*
گمنام
جب اولاد تکلیف سے تڑپ رہی ہو اور دوا کے پیسے نا ہوں۔۔۔
▪جب محبوب باہر مزید عورتوں پہ اپنی عاشق مزاجی کے سبب فدا ہو رہا ہو۔۔۔
🔥🔥 *جب شادی کے چند دن بعدہی محبت کا سیاپا ختم ہو کر اصل ذندگی شروع ہو جائے*۔۔۔
▪جب رہنے کو گھر اچھا نا ہو۔۔۔
🖤 *ساری محبت غائب ہو جاتی ہے*۔۔۔ 🖤
✒️ میری ایک بات لکھ کر رکھ لیں۔۔۔
*محبوب بدل سکتاہے۔۔۔ لیکن اچھا انسان نہیں بدلتا*۔۔۔
🙏🏻 *نکاح کرنے کے لیئے اچھا شریف ذمےدار اور کمانے والا عزت کرنے والا شخص چنیں۔۔۔ محبوب نہیں*۔۔۔
مرد کی کل کائنات ایک وہ بیوی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں وہ اپنا سارا وقار ، ساری عزت ، ساری آبرو رکھ کر اُس کے لیے کمانے نکل جاتا ہے صرف اِس بھروسے پر کہ وہ اُس وقار اُس آبرو کو اپنی مُٹھی میں سنبھال کر رکھے گی*
👇🏻🔥🔥🔥🔥🔥👇🏻
" *ان لڑکیوں کے لیئے۔۔۔ جو یہ سمجھتی ہیں کہ بس محبوب مل جائے تو اور کچھ نہیں چاہیئے*۔۔۔
محبوب کے ساتھ ذندگی جیسی بھی ہوئی گزار لیں گے۔۔۔
▪جب پیٹ میں روٹی نا ہو۔۔۔
▪کہیں جانے کے لیئے ڈھنگ کا سوٹ نا ہو۔۔۔
▪جب برسوں بھی پسند کا کھانے کو نا ملے۔۔۔
▪جب محبوب لاپرواہ ہو۔۔۔
▪جب وہ آپ کو لے جا کر سسرال والوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر بھول جائے۔۔۔
ﮭﺎ.
ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ !
پڑوسی نے کہا.... ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ، ﻭﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻ ﺳﮑﺎ... ﺳﭻ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﮨﮯ، ﻭﮨﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ....!
ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﯿﮟ، ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ..؟
ایک بابا جی کہا کرتے تھے کہ پتر
جانوروں کو ذبح کرنا سنت ابراھیم علیہ السلام
اور
نفرتوں کو ذبح کرنا سنتِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم ہے
ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺧﺮﯾﺪﺍ. ﺍس میں پھلوں کا ایک باغ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ.
ﭘﮍﻭﺱ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮍﻭﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﺑﮭﺮ ﻛﻮﮌﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ.
ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﻟﯽ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺑﺠﺎﺋﯽ. ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ. ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﻼ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﮯ.
ﻣﮕﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ، ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮔﺌﮯ.ﺭﺳﯿﻠﯽ ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﺮﯼ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻟﺌﮯ ﻧﯿﺎ ﭘﮍﻭﺳﯽ، ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain