Explanation
1-Har insan kamiyab nahi ho sakta, kamiyab sirf wohi hota hai jo us k lie koshish karta hai.
2-Jinki namazon Mai khushu hota h..
Khushu ka Matlab Dil ki aajzi,Dil ka jhukna.
Namaz Puri zindagi ka aaena hai,banday ka talluq Allah se kesa hota hai yeh uski namaz btati hai.
Namaz mai khushu jb tk aahi nh sakta jb tk bndy ka logo se mamlat achy na hn..
3- laghw r fazul se parhaiz krty hn..
laghw ka dictionary meaning k "aesa kaam Jo insan ko usk asal maqsad se hata dy"
Har fazol bekar bemaqsad kaam laghw hai jiska duniya o akhirat mai koi faida nahi.
🌹📖 عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْـمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ»[5]
[5] صحیح مسلم:رقم244
👈🏻 *’’ قرآن کریم کے ماہر کا انجام مقرب ومعزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ او رجو قرآن پڑھتے ہوئے اَٹکتا ہے، اور روانی سے اچھی تلاوت نہیں کرسکتا، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (ایک تلاوت کا اور دوسرا اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کا)*
جس طرح ہر کام کے لیے نبی کریم ﷺکا اُسوہ حسنہ ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اسی طرح تلاوتِ قرآن کے مبارک، مسنون اور نیک عمل کے لیے بھی آپﷺکے طریقہ سے رہنمائی لینا چاہیے، اس سلسلے میں بعض تفصیلات نبی کریمﷺ کے ارشادات (قولی حدیث) سے معلوم ہوتی ہیں اور کچھ آپ کے عمل (فعلی حدیث) سے
تلاوتِ قرآن کریم کو سننا بھی نیکی ہے، جیسا کہ یہ حدیثِ نبوی ہے
«مَنِ اسْتَمَعَ إلىٰ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالىٰ كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، ومَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ»[4]
[4] مسند احمد: رقم8475۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔( ضعیف الجامع: 5408)
👈🏻 ’’جس نے کتاب اللّٰہ کی ایک آیت سنی، اس کے لیے دوہری نیکی لکھی جاتی ہے، اور جس نے اسے تلاوت کیا، وہ تلاوت روز قیامت اس کے لیے باعثِ نور ہوگی۔‘‘
قرآن كریم کی تلاوت کی مہارت کا کیا ثواب ہے اور دوسری طرف اس میں مشقت برداشت کرنے کا کیا اجرہے؟ اس فرمانِ نبوی میں ملاحظہ فرمائیں:
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
ایسے لوگ سامنے آئیں جنکو 14 فروری کے آنے یا نا آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا😁😋
تو میں دکھ کے ساتھ سوال کرتا ھوں کیا آج کی عورت کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور آپکی بیویوں سے زیادہ پاک اور صاف ھے اگر انکو پردے کا حکم ھے تو آج کی عورت کو کیوں نہیں......؟
کیا آج کی عورت مسلمان نہیں...؟
مومن کی بیٹی نہیں...؟
ایماندار نہیں...؟
کیا اسکا قرآن پر ایمان نہیں...؟
ایک لمحہ کیلیئے سوچیں....؟
طالب دعا
کوہی گمنام
کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
لیکن
افسوس آج اگر کسی کو پردہ کا درس دو تو جواب ملتا ھے
چہر ے اور بدن کے پردہ کی ضرورت نہیں
بلکہ پردہ دل کا ھونا چاھیے اور دل صاف ھو نا چاہیئے
لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ
کڑوی بات،
آج کل کی عورت 1 کلو کا زیور اٹھا سکتی ہے لیکن دوپٹہ نہیں۔!
وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ
مگر افسوس کہ وہ شہد سے باہر نہ نکل سکی۔
شہد کی چکنائی کی وجہ سے اس کے پیر زمین سے چپک گئے تھے اور اس میں انہیں ہلانے کی طاقت نہ رہی...!
وہ شہد میں رہ گئی یہاں تک کہ وہ اسی میں ہی مر گئی !
اس کی لذت اندوزی نے شہد کو ہی اس کی قبر میں تبدیل کر دیا!
ایک دانا کا قول ھے:
دنیا شہد کے ایک بہت بڑے قطرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے!
پس جو بھی اس قطرہ شہد میں سے تھوڑا اور بقدر کفایت کھانے پر اکتفاء کرے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو بھی اس شیرینی میں غوطہ زن ہو گا ہلاکت اس کا مقدر بن جائے گی...!!!
#گمنام
یہ سبق لازمی پڑھے،
شہد کا ایک قطره زمین پر گر گیا. ایک چھوٹی سی چیونٹی آئی اور اُس نے اس شہد کے قطرے سے تھوڑا سا چکھا۔ اُسے بڑا مزا آیا۔
اسے کام سے جانا تھا تو جب وہ جانے لگی تو اس شہد کا مزہ اس کے منہ میں مزید پانی لانے کا سبب بنا، اُس کا منہ بھر آیا:
کیا زبردست اور مزے دارشہد ہے۔
کتنا میٹھا!
آج تک ایسا شہد نہیں کھایا!!
وہ لوٹی اور شہد میں سے تھوڑا سا اور چکھ لیا...
اس نے دوبارہ جانے کا عزم کیا مگر اُس نے محسوس کیا کہ یہ تھوڑا سا شہد کھانا کافی نہیں ہے، اُسے اور کھانا چاھئے۔
وہ رکی اور اس مرتبہ کھانے کے بجائے شہد پر گر پڑی تا کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرلے!
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
فرشتے کہتے ہیں کس قدر گندی بو ہے یہ! جیسے ہی فرشتے اگلی زمین کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو اس زمین کے دروازے کے محافظ فرشتے بھی ایسا ہی کہتے ہیں حتیٰ کہ عذاب کے فرشتے اسے کفار کی روحوں کی معین جگہ (یعنی سجین ) میں لے آتے ہیں _"
ابنِ حبان)*
═════════════
پھر وہ آپس میں کہتی ہیں اسے ذرا چھوڑو آرام کرنے دو یہ دنیا کے مصائب و آلام میں مبتلا تھا ( سستانے کے بعد ) وہ روح جواب دیتی ہے کہ کیا وہ روح تمہارے پاس نہیں آئی وہ آدمی تو فوت ہو چکا ہے جس پر وہ ( افسوس سے ) کہتے ہیں وہ اپنی ماں ہاویہ ( یعنی جہنم ) میں لے جایا گیا ہے _ کافر آدمی کے پاس عذاب کے فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں اے غمزدہ اور مغضوب روح نکل اللّٰہ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی طرف _ کافر کی روح جب جسم سے نکلتی ہے تو اس سے اس قدر ( غلیظ ) بدبو آتی ہے جس قدر کسی مردار سے ( غلیظ ) بو آتی ہے فرشتے اسے لے کر زمین کے دروازے کی طرف آتے ہیں تو ( زمین کے دروازے کے محافظ ) فرشتے کہتے ہیں کس قدر گندی بو ہے یہ! جیسے ہی فرشتے
مومن آدمی کی روح جب جسم سے نکلتی ہے تو اس سے بہترین مشک جیسی خوشبو آرہی ہوتی ہے یہاں تک کہ فرشتے ایک دوسرے سے لے کر اس کی خوشبو سونگھتے ہیں اور جب آسمان کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے آپس میں کہتے ہیں یہ کیسی عمدہ خوشبو ( والی روح ) ہے جو زمین سے تمہارے پاس آ رہی ہے فرشتے جیسے ہی اگلے آسمان پر پہنچتے ہیں تو اس آسمان کے فرشتے بھی اسی طرح کہتے ہیں یہاں تک کہ ( لانے والے فرشتے ) اس روح کو اہلِ ایمان کی روحوں کی جگہ ( علیین ) میں لے آتے ہیں جب وہ روح پہنچتی ہے تو ( پہلے سے موجود ) روحوں کو اتنی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی ایک کو اپنے بھائی کے ملنے پر ہو سکتی ہے چنانچہ بعض روحیں ( نئ آنے والی روح سے ) پوچھتی ہیں فلاں آدمی کس حال میں ہے؟ پھر وہ آپس میں کہتی ہیں اسے ذرا چھوڑو
آسمان کے فرشتے کہتے ہیں کوئی ناپاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آ رہی ہے پھر ( اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ) حکم ہوتا ہے اسے قیامت قائم ہونے تک ( اس کی معین جگہ یعنی سجین میں ) لے جاؤ_ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کافر کی روح کی بدبو کا ذکر فرمایا تو ( نفرت سے ) اپنی چادر کا دامن اس طرح اپنی ناک پر رکھ لیا اور پھر اپنی چادر ناک پر رکھ کر دکھائی
*🌟ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم ( کا کفن ) لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں ( اے روح!) اللّٰہ کی رحمت٬ جنت کی خوشبو اور اپنے خوش ہونے والے رب کی طرف اس حالت میں اس جسم سے نکل کہ تو اپنے رب سے راضی ہے اور تیرا رب تجھ سے راضی ہے _
✒مــرتے وقت کافــر کی ســزایٔیں
*🌟سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں ( حدیث کے راوی ) حماد کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے روح کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے فرشتے ( اس روح کی خوشبو پا کر ) کہتے ہیں کوئی پاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے اللّٰہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جسے تو نے آباد کر رکھا تھا پھر فرشتے اپنے رب کے حضور اس روح کو لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اسے قیامت قائم ہونے تک ( اس کی معین جگہ یعنی علیین میں ) پہنچا دو _ حدیث کے راوی نے کافر کی روح کے نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے روح کی بدبو اور اس پر ( فرشتوں کی ) لعنت کا ذکر کیا _
﷽
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔
O Allah! Grant well-being to my body, O Allah! Grant well-being to my hearing, O Allah! Grant well-being to my sight. There is no true deity except You.
اے الله! میرے بدن میں مجھے عافیت دے، اے الله! میرے کانوں میں مجھے عافیت دے، اے الله! میری آنکھوں میں مجھے عافیت دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﮮٔ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ۔
🍀 ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ ( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ) ﺭﮨﯿﮟ۔
🍀 ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ۔
🍀 *ﮔﺰﺍﺭﺵ ﺟﺲ ﺑﮩﻦ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﻻﻋﻠﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌﮮ*۔
🍀 ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮨﮯ۔
🍀 *ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ فالو کریں تاکہ میری پوسٹ سے آپ مسرت ھوں
ﺭﮨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻧﮯٔ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍﺳﮑﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﯽ۔
🍀 *ﺍﮔﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ*
🍀 ﺣﻀﺮﺕ خدیجہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ خدیجہ ﺑﻨﺖ ﺧﻮﺍﻟﺪ ﺭﮨﯿﮟ۔
🍀 ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﻋﺎﺋﯿﺸﮧ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
🍀 ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔🍀 ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺑﻨﺖ حئ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔
🍀
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain