گناہ کے چھوٹا ہونے کی طرف نہ دیکھو
بلکہ یہ دیکھو کہ تم نافرمانی کس کی کر رہے ہو
وہ شخص اپنے آپ پر بہت ظلم کرتا ہے جو پورے دن میں ایک بار بھی استغفار نہیں کرتا
دیتا ہے، یہ تو پھر ایک معمولی سا جوتا ہے. سو روپیہ مزید کم اس لیے کیا کہ ہمارے بھتیجے کے لیے سو روپے کا کوئی کھانے کا چیز شیز لے جانا"
دکاندار نے جواب دیا.
"کیا تم نے میرے صرف بھائی کہنے پر یہ جوتا مجھے سات سو کا دے دیا؟"
اسلم بے یقینی سے بولا.
"ہاں! صرف بھائی کہنے پر " دکاندار نے جواب دیا.
اسلم نے سات سو روپے دکاندار کو دیے اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جوتے لے کر دکان سے باہر نکل گیا.
ہمارے ہاں اتنے پیارے پیارے اور اپنائیت بھرے الفاظ اپنی تاثیر اور معنویت ہی کھو چکے ہیں. اگر یہی الفاظ سوچ سمجھ کر بولے اور سنے جائیں تو ان میں سے ایک ایک لفظ کسی کے اندر ایک انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.
مزید اس قسم کے تحریرات کیلئے اس آئ ڈی کو فالو کریں شکریہ------------->>>>>>>>>
دیتا ہے، یہ تو پھر ایک معمولی سا جوتا ہے. سو روپیہ مزید کم اس لیے کیا کہ ہمارے بھتیجے کے لیے سو روپے کا کوئی کھانے کا چیز شیز لے جانا"
دکاندار نے جواب دیا.
"کیا تم نے میرے صرف بھائی کہنے پر یہ جوتا مجھے سات سو کا دے دیا؟"
اسلم بے یقینی سے بولا.
"ہاں! صرف بھائی کہنے پر " دکاندار نے جواب دیا.
اسلم نے سات سو روپے دکاندار کو دیے اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جوتے لے کر دکان سے باہر نکل گیا.
ہمارے ہاں اتنے پیارے پیارے اور اپنائیت بھرے الفاظ اپنی تاثیر اور معنویت ہی کھو چکے ہیں. اگر یہی الفاظ سوچ سمجھ کر بولے اور سنے جائیں تو ان میں سے ایک ایک لفظ کسی کے اندر ایک انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.
مزید اس قسم کے تحریرات کیلئے اس آئ ڈی کو فالو کریں شکریہ------------->>>>>>>>>
ٹھیک ہے میرے بھائی........... جیسے آپ کی مرضی! "
اسلم مایوسانہ لہجے میں بولا اور دکان سے نکلنے لگا.
اسلم کے منہ سے یہ الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ گویا انہونی ہی ہو گئی. دکاندار فورًا اٹھا اور جوتے شاپر میں ڈال کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیے اور ساتھ ہی بولا:
"نکالو سات سو روپے"
اسلم ہکا بکا ٹکٹکی باندھے دکاندار کو دیکھ رہا تھا. وہ حیرت زدہ انداز سے بولا: "ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ تمہیں خود یہ جوتا نو سو کا پڑا ہے اور تم کسی صورت آٹھ سو کا نہیں دو گے. لیکن اب ایسا کیا انقلاب آ گیا کہ تم خود ہی سات سو کا دینے پر تیار ہو گئے ہو ؟"
"یہ انقلاب تم نے ہی تو پیدا کیا ہے. "
دکاندار بولا.
"میں نے؟ مگر کیسے؟"
اسلم نے مزید حیرت زدہ ہو کر پوچھا.
"تم نے ابھی ہم کو بھائی بولا........ بھائیوں کے لیے تو انسان جان بھی دے
پرانی بات ہے کہ ایک قالین فروش پٹھان نے ایک لڑکی کو صرف بھائی کہنے پر قالین مفت دے دیا کہ تم نے ہم کو بھائی بولا ہم اپنی بہن سے پیسے نہیں لے سکتا.
........................
"ہم نے بول دیا ناں! ہم یہ جوتا ہزار روپے سے کم پر نہیں دے گا. یہ ہمیں خود نو سو کا پڑا ہے."
دکاندار نے اب قدرے سختی سے جواب دیا.
اسلم کب سے اس بات پر اڑا ہوا تھا کہ وہ جوتے کے آٹھ سو روپے ہی دے گا. لیکن دکاندار مان کر ہی نہیں دے رہا تھا. اصل میں اس غریب کے پاس اس کے علاوہ صرف کرایہ کے پیسے بچے تھے. اس کے بیٹے کو کل بھی سکول میں گھر کے جوتے پہن کر جانے پر سزا ملی تھی.
"تم جا کر کسی اور سے آٹھ سو کا لے لو. ہم مر جائے گا پر تمہیں جوتا نہیں دے گا. تم نے دو سو روپے کے لیے ہمارا مغز خراب کر دیا. "
دکاندار بھی اب اسلم سے تنگ آ چکا تھا.
"ٹھیک ہے میرے بھائی... جیسے آپ
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
دوپہر با الخیر
جو لوگ حج و عمرہ کے لیئے جاتے ہیں ۔ ان کی فیس بک / واٹس ایپ پہ شئیر کی گئیں ۔ سیلفیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کو راضی کرنے اور اپنے گناہ بخشوانے کے لیئے نہیں بلکہ سیر سپاٹے اور لوگوں کو دیکھانے یعنی ریاکاری کی نیت سے حج و عمرہ کرنے گئے ہیں۔
اللہ پاک اپنی عبادت کو ریاء کاری سے محفوظ فرما کر صرف اور صرف اپنے لیئے خالص کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
شب بخیر
شادیوں میں ایک سب سے بڑی روکاوٹ انسان کے اپنے قریبی ترین رشتہ دار بھی ہیں ۔ جب کہیں رشتے کی بات چلنے لگتی ہے تو وہ جان بوجھ کر کوئی ایسی حرکت کردیتے ہیں یا کوئی ایسی بے عزتی کرنے والی بات کر دیتے ہیں کہ دوسری پارٹی کو مجبوراً رشتے سے انکار کرنا پڑتا ہے ۔ لہذا ایسی صورت حال سے بچنے کے لیئے رشتہ طہہ کرتے وقت ان حاسدین کے علم میں بھی نہیں آنے دینا چاہیئے کہ آپ کا رشتہ طہہ ہوگیا ہے ۔ ان کو اس وقت علم ہو جب آپ کی شادی کو ایک ہفتہ یا اس سے کم وقت رہ جائے تاکہ ان کو کسی بھی شرارت کرنے کا موقع ہی نہ مل پائے ۔
کیا دعویٰ کرنے والے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساس اور سسر قرابت داروں میں شامل نہیں ؟؟؟
کیا دعویٰ کرنے والے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساس اور سسر انسان نہیں ؟؟؟
اگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے تو وہ جان لیں کہ ان تین سے بھلائی کرنے کا حکم یعنی آڈر اللہ پاک نے دیا ہے ۔ لہذا لوگوں کو اپنی خود غرضی کی وجہ سے گمراہ نہ کرو کہ لوگ اپنے والدین سے بھلائی کرنے کی بجائے جان چھڈانے لگیں۔ بچ جاو اللہ پاک کے عذاب سے جو گمراہوں کو اور گمراہی کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
جو دین اسلام والدین ، قریبی رشتہ داروں ، ہمسائیوں ، انسانوں ، جنوں حتاکہ جانوروں تک کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ اسی دین اسلام کے متعلق بغیر کسی ثبوت یا قرآن و حدیث کے حوالے سے یہ دعویٰ کرنا کہ ضعیف اور بیمار ساس اور سسر کی خدمت کی ذمہ داری بہو کی نہیں۔ ایسے دعویٰ کو جہالت ، خود غرضی یا انا پرستی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔
کیا دعویٰ کرنے والے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ساس اور سسر والدین کے رتبے پہ نہیں ؟؟؟
کیا دعویٰ کرنے والے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ساس اور سسر قرابت داروں میں شامل نہیں ؟؟؟
ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ
ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ کہ :
’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ کہ :
’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ۔ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (ﺣﻀﺮﺕ) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘
ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﺸﺮﻗﯿﻦ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
"ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﻋﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﻮتا
طالبِ دعاِ نیک
کوہی گمنام
ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ۔ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ...!
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ...!
ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﯿﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ
ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ .!
ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ (ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ) ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ .!
ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
’’ ﻟﻮﮔﻮ ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ :
’’ ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ :
’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ
ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ
ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔◾ ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.◾ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔"◾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘◾ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ
ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ کہ :’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔◾ ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔◾ ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔◾ ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ
#ﺣﻀﺮﺕ_سیدنا_ﻋﻤﺮ_ﻓﺎﺭﻭﻕ_ﺭﺿﯽ_ﺍﻟﻠﮧ_ﻋﻨﮧ
ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ :✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭﺩﯾﺎ۔✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ✅ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.✅ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ ﮐﯽ نگرانی ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
دوستوں میں ان شاء اللہ بہت جلد خلیفہِ دوم حضرت عمر ابنِِ الخطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک تحریر لے کے آ رھا ھوں امید ھے آپ میرا ساتھ دیں گے اللہ ھم سب سے راضی ھو جاۓ
آمین
پھر یہ کھلم کھلا تباہی مچاتے نظر آئیں گے ۔ کوئی یونیورسٹی ، کالج ، سکول ، پارک حتیٰ کہ مدارس بھی ان بھیڑیوں سے محفوظ نہیں رہیں گے ۔ سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں بھی ایسے بھیڑیے جگہ جگہ نظر آئیں گے ۔ ان کے نزدیک کسی کہ ماں ، بہن ، بیٹی کی کوئی عزت نہیں ہوگی ۔ ہر طرف کھلم کھلا بھیڑیے دھندناتے پھریں گے ۔ جیسے ہی ان کو کہیں اپنا شکار نظر آئے گا ۔ یہ ان پہ جھپٹ پڑھیں گے ۔ پھر اس کا واحد حل یہی ہوگا کہ اس بھیڑیا صفت نسل کو یاتو قتل کردیا جائے یا پھر اس بھیڑیا صفت نسل پہ اللہ پاک کا ایسا عذاب نازل ہو کہ یہ ساری کی ساری نسل تباہ و برباد ہوجائے ۔طالبِ دعا کوہی گمنام
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain