وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم تمام عمر ہے اب انتظار کا موسم حیات اب بھی کھڑی ہے اُسی دوراہے پر وہی ہے جبر وہی اختیار کا موسم ابھی تو خود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال ابھی کہاں دلِ امید وار کا موسم اُسے بھی وعدہ فراموشی زیب دیتی ہے ہمیں بھی راس نہیں اعتبار کا موسم ❣❣
پھر سے قبولیت کے یقیں پر پڑے رہے پھینکے جہاں پھول وہیں پڑے رہے جس کو ملے تھے اُسکو ضروری نہیں لگے ہم تھے کہیں کی خاک__کہیں پر پڑے رہے آنکھوں میں خواب پالتے لیکن بے شعور بچوں سی ضد لگائی زمیں پر پڑے رہے اِک سمت داستاں رہائی کی ایک سمت بے جان و جسم اور حَسیں پر پڑے رہے ❣❣
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain