پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر , انہیں احساس نہیں ! میں نشانات مٹاتے ہوئے , تھک جاتا ہوں۔۔ غمگساری بھی عجب کار محبت ہے , کہ میں ! رونے والوں کو ہنساتے ہوئے , تھک جاتا ہوں۔۔ اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر , محسن ! میں چراغوں کو جلاتے ہوئے , تھک جاتا ہوں۔۔
میں جانتا ہوں کہ آج ہے اور کل نہیں ہے سو یہ محبت مِری اُداسی کا حل نہیں ہے کہا نہیں تھا تِری کمی مار دے گی مجھ کو کہا تو تھا کوئی تیرا نعم البدل نہیں ہے تُو زندگی میرے حوصلے کی تو داد دے ناں تُجھے گزارا ہے اور ماتھے پہ بل نہیں ہے
ہم محبت شناس لوگوں کو غم سہنے کی عادت ہے جھوٹ موٹ کی اس دنیا میں سچ کہنے کی عادت ہے ٹھکانا ایک ہی رکھا نہ ہم بدلے نہ دل بدلا تمہارے دل میں رہنے ہیں وہی رہنے کی عادت ہے ہم ریت نہیں جو نکل جائیں ہاتھوں سے ہم الفاظ نہیں جو پھسل جائیں ہم دریا ہیں اں آ نکھوں کا ہمیں بہنے کی عادت ہے