دل ویراں ہے ، تیری یاد ہے ، تنہائی ہے
زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے
مرے محبوب زمانے میں کوئی تجھ سا کہاں
تیرے جانے سے میری جان پہ بن آئی ہے
ایسا اجڑا ہے امیدوں کا چمن تیرے بعد
پھول مرجھائے، بہاروں پہ خزاں چھائی ہے
چھاگئے چاروں طرف غم کے اندھیرے سائے
میری تقدیر میرے حال پہ شرمائی ہے
اُونچی جگہ سے گِر کر ____میں بے نشان ٹوٹا
تیرے بھی ہاتھ خالی ,میرا بھی مان ٹوٹا __!
خستہ دلی کا دُکھ بھی __ اپنی جگہ ہے لیکن
بستی میں سب سے پہلے میرا مکان ٹوٹا __!
پہلے میں سوچتا تھا زندہ ہُوں میں پھر اِک شب
ایسا گمان ٹوٹا _____ایسا گمان ٹوٹا __!
اک کہکشاں تھی مُجھ میں قوسِ قزح تھی ہر سُو
پھر سر پہ آکے میرے ____ اِک آسمان ٹوٹا __!
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
بےوجہ خاموش نہیں ہوں میں
کچھ تو برداشت کیا ہوگا میں نے
وہ ایک شخص کِسی طور بس مِل جاتا مُجھے
مُجھے منظور تھے پھر جِتنے خسارے ہوتے!
مثالِ آتش ہے یہ _______ روگِ محبّت "
روشن تو خُوب کرتی ہے مگر جَلا جَلا کر"
آپ تو حل تھے میری اذیتوں کہ ...
آپ ہی مجھے مشکل میں ڈال گئے !
اداسیوں میں کئی قہقہے پروتے ہوئے
جئے ہیں شان سے ہم زخم، زخم ہوتے ہوئے
بہت بڑا ہے خسارہ یہ سب خساروں میں
کہ کوئی کھو گیا ہے, دسترس میں ہوتے ہوئے
پرکھا بہت گیا مجھ کو
لیکن کبھی سمجھا نہیں گیا
اس نے کہا تھا عشق ایک ڈھونگ ہے ۔
میں نے کہا تُجھے عشق ہو خدا کرے
پھر تُجھے اس سے کوئی جدا کرے
پھر تو گلی گلی پھیرا کرے
اسے تو تصبیوں میں پڑھا کرے
صرف اسی کا نام تو لیا کرے
پھر میں کہوں عشق ایک ڈھونگ ہے
اور تو نہیں نہیں کیا کرے
اب کے خاموش ہوئے تو گِلہ نہ کیجیئے گا
سارے الفاظ، فُرصتیں، صدائیں واری تھیں۔
دھو کے ایسے ہی نہیں ملتے
بھلا کر نا پڑتا ہے لوگوں کا
تو میرا وقت کھا گیا سارا، میرا تجھ سے حساب بنتا ہے
سچ بتا اس مقام پر مجھ سے ،کیا تیرا اجتناب بنتا ہے؟؟
سکوت شام کا منظر ھے اور بجھی آنکھیں
اداسی حد سے بڑھی ھے تو کتنی پیاری ھے
یہ میرا دل نہیں اجڑا ھوا مکاں ھے کوئی
یہ میری آنکھ نہیں زخموں کی کیاری ھے
خلافِ توقع تھا مگر دیکھئے پھر بھی
کس جی جان سے سہا ہے غمِ ہجراں ہم نے
مجھ میں--کئی راز ہیں ۔۔۔ بتلاؤں کیا
بند ایک مدت سے ہوں کھل جاؤں کیا !
عاجزی ، منت ، خوشامد ، التجاء
اور میں کیا کیا کروں ۔۔ مر جاؤں کیا !
کون سا دکھ بتاوں آپ کو
ہر دکھ میں مبتلا ہوں میں
بے دلی سے ہی سہی مگر کبھی کبھی تو
وہ جو حال پوچھتے ہیں احسان کرتے ہیں
مانتا ہوں تجھے عشق نہیں مجھ سے لیکن
اس وہم سے اب کون نکالے مجھ کو
سر کی کھائی ہوئی قسموں سے مکرنے والے
تو تو دیتا تھا حدیثوں کے حوالے مجھ کو
ہر شخص نے پرکھا ایسے
سارے امتحان ہم پر فرض ہوں جیسے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain