اب کیا خلاصہ بتائیں اپنی حالتِ زار کا تم کو کہ ہم ایسے ہیں جیسےجلے ہوۓ خط ہوتے ہیں مجھے یقیں تھا وہ واقف مرے احساس سے ہے پھر اُس نے بتایا کہ اندازے غلط ہوتے ہیں
کھڑکی، چاند، کتاب اور میں مدت سے اک باب اور میں شب بھر کھیلے آپس میں دو آنکھیں، ایک خواب اور میں موج اور کشتی ساحل پر دریا میں گرداب اور میں شام، اداسی، خاموشی کچھ کنکر، تالاب اور میں ہر شب پکڑے جاتے ہیں گہری نیند، تیرے خواب اور میں.
تجھے کسی نے غلَط کہہ دیا مِرے بارے نہیں ' مِیاں ! میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں ہے ایک رَمز جو ' تجھ پر عیاں نہیں کرنی ہے ایک شِعر جو ' تجھ کو سنانے والا نہیں