یہ دَور وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تَلے سبھی کو بزم میں دیکھو ' مگر دِکھائی نہ دو جواب ِ تُہمت ِ اَہل ِ زمانہ میں ' خُورشیدؔ ! یہی بہُت ہے کہ لب سی رکھو ' صفائی نہ دو !
دِل رکھنے کیلئے ہی ، کہہ دیجئے ذرا میں جانتا ہوں آپ سے، آیا نہ جائے گا بروزِ عید کوئی پُوچھے ، جو آپکا حال میں رو پڑوں گا یار ، بتایا نہ جائے گا یہ عید کیا شفقتؔ، ہر تہوار آپکے بغیر گُزارا تو جائے گا ، منایا نہ جاے گا
عجیب رت ہے کہ اب کے بادِ سموم جیسے برنگِ موجِ قہر گئی ہے عجیب چپ سی ٹھہر گئی ہے تُجھے خبر ہے جو کوئی لہجہ بدل رہا ہو کسی کے دل سے نکل رہا ہو تو ایسا لگتا ہے کوئی سنگدل کسی بھی دکھتی ہوئی سی رگ کو پکڑ کے جیسے مسل رہا ہو کُچل رہا ہو عجیب دکھ ہے۔۔!!
پُرانے زخم ہیں کافی، شمار کرنے کو سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دُنیا کو جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے