دِل رکھنے کیلئے ہی ، کہہ دیجئے ذرا میں جانتا ہوں آپ سے، آیا نہ جائے گا بروزِ عید کوئی پُوچھے ، جو آپکا حال میں رو پڑوں گا یار ، بتایا نہ جائے گا یہ عید کیا شفقتؔ، ہر تہوار آپکے بغیر گُزارا تو جائے گا ، منایا نہ جاے گا
دل ویراں ہے ، تیری یاد ہے ، تنہائی ہے زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے مرے محبوب زمانے میں کوئی تجھ سا کہاں تیرے جانے سے میری جان پہ بن آئی ہے ایسا اجڑا ہے امیدوں کا چمن تیرے بعد پھول مرجھائے، بہاروں پہ خزاں چھائی ہے چھاگئے چاروں طرف غم کے اندھیرے سائے میری تقدیر میرے حال پہ شرمائی ہے
دوسرا یہ ہے کہ مرجائیں تو بس جاں چھوٹے پہلا حل یہ تھا میں اس شخص کے نزدیک ہوتا!! ہمت و حوصلہ کہنے کی فقط باتیں ہیں 'ٹھیک ہو جائے گا' کہنے سے نہیں ٹھیک ہوتا
ڈھلتا سورج, خیال اور میں تیری یاد, ملال اور میں کون, کسے, کہاں, اور کیوں الجھے چند سوال اور میں خوشبو بیتے لمحوں کی رنگوں کا اک جال اور میں آج بھی تجھ کو ڈھونڈ رہے ہیں دھڑکن کی ہڑتال اور میں
اُس کے نہ مِلنے کا ملال تو رہے گا۔۔ خود کو لاکھ سمجھاؤں مگر خیال تو رہے گا۔۔ اور میں اس جہان میں ایک بھی۔۔۔ شخص کا حقدار نہیں تھا کیا۔۔؟؟ خود سے میرا یہ سوال تو رہے گا۔۔!!