وہ تیرے بعد پھر کبھی ہرے نہ ہوسکے. جنہیں ترا فراق کھا گیا تری کمی نِگل گئی. چلو وہ لوگ تو جِنہیں قضا نے آ لیا, مگر. ہمیں تو جیتے جی ہماری زندگی نِگل گئی...
کہتا ہے دل کہ آنکھ نے کیا مجھ کو خراب کہتی ہے آنکھ یہ کہ مجھے دل نے کھو دیا لگتا نہیں پتا کہ صحیح کون سی ہے بات دونوں نے مل کے میر ہمیں تو ڈبو دیا
ہاں ٹھیک ہے فرشتہ نکالے گا سب کی جان لیکن جو لوگ تیری محبت میں مر گئے وہ۔۔
میں نے بھیجے تھے اسے لکھ کے مسائل اپنے اس نے بدلے میں مجھے صبر کی آیت بھیجی
یہ بات سچ ہے کہ محوِ خطاب ہوں لیکن میں جلد ہی کسی تحریر میں رہ جاؤں گا ہوں میسر تو ابھی مجھ سے گفتگو کر لو میں عنقریب تصاویر میں رہ جاؤں گا
سقراط کے پینے سے کیا مجھ پہ عیاں ہوتا خود زہر پیا میں نے، تب اس کا اثر جانا جب بھی نظر آؤ گے، ہم تم کو پکاریں گے چاہو تو ٹھہر جانا، چاہو تو گزر جانا
یہ ساولی رنگت یہ سادہ سا ہولیہ یہ اداس آنکھیں ہم سے کوئی جو دل لگائے تو کیوں لگائے
عکس پڑتے ہی آئینے سبھی ٹوٹ گئے نبض کاٹی تو رگیں خون سے خالی نکلیں میرا دل درد مسلسل کی گرفت میں رہا خشک آنکھوں سے خوابوں کی لاشیں نکلیں
دھیمی آواز پہ دھرتا ہی نہیں کان کوئی طیش میں آؤں تو لہجے سے ادب جاتا ہے
مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے نوک نیزہ سے مرا سر نہ اتارا جائے شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا سورج اک بار مرے دل سے گزارا جائے اس کی یہ ضد کہ مرا قتل پس پردہ ہو مری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے
ایک ہی سمجھنے والا تھا مجھے ہائے وہ بھی سمجھدار ہو گیا
جب اُس نے شریک کیا _________میری مُحبت میں کسی اُور کو پھر احساس ہوا کہ خُدا شرک کرنے والوں سے نفرت کُیوں کرتا ہے...
عمل پہ دخل پہ خلل پہ معذرت،، آپ ہی کے لہجے کی نقل پہ معذرت!!
حساب عشق دیکھا،عجب دیکھا،غضب دیکھا سب نفی،تجھے واحد،خود کو صفر دیکھا
تیرے سِتم کا دور رواں ہے ابھی گُناہوں کی سزا باقی ہے ابھی رہتے ہیں ارماں زِندگی کے ابھی تو موت کا مزّہ باقی ہے
یوں تو نا مسکرا میری بے بسی پے چند الفاظ جو بولوں تو رو دو گے
تم میری اذیت کی وہ حد ہو جسے میں سوچ کے رو پڑتا ہوں
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں