میں جانتا ہوں کہ آج ہے اور کل نہیں ہے سو یہ محبت مِری اُداسی کا حل نہیں ہے کہا نہیں تھا تِری کمی مار دے گی مجھ کو کہا تو تھا کوئی تیرا نعم البدل نہیں ہے تُو زندگی میرے حوصلے کی تو داد دے ناں تُجھے گزارا ہے اور ماتھے پہ بل نہیں ہے
ہم محبت شناس لوگوں کو غم سہنے کی عادت ہے جھوٹ موٹ کی اس دنیا میں سچ کہنے کی عادت ہے ٹھکانا ایک ہی رکھا نہ ہم بدلے نہ دل بدلا تمہارے دل میں رہنے ہیں وہی رہنے کی عادت ہے ہم ریت نہیں جو نکل جائیں ہاتھوں سے ہم الفاظ نہیں جو پھسل جائیں ہم دریا ہیں اں آ نکھوں کا ہمیں بہنے کی عادت ہے
دِل رکھنے کیلئے ہی ، کہہ دیجئے ذرا میں جانتا ہوں آپ سے، آیا نہ جائے گا بروزِ عید کوئی پُوچھے ، جو تیرا حال میں رو پڑوں گا یار ، بتایا نہ جائے گا یہ عید کیا شفقتؔ، ہر تہوار تیرے بغیر گُزارا تو جائے گا ، منایا نہ جائے گا