اس سے پہلے تو دعاؤں پہ یقین تھا کم کم
تو نے چھوڑا تو مناجات کا مطلب سمجھے
تجھ کو بھی چھوڑ کے جائے ترا اپنا کوئی
تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے
میرے قریب رہا پھر بھی مجھ کو پڑھ نہ سکا
میرا وجود تو محفوظ اک کتاب میں تھا
کھولا جو نامہء اعمال حشر میں میرا
بس ایک جرم محبت میرے حساب میں تھا
ایک مدت سے اجڑتے ہی چلے آئے ہیں
ایک لمحے میں کہاں ہم نے سنور جانا ہے
جس طرح رات کٹی دن بھی گیا ہاتھوں سے
اسی طرح ہم نے بھی کسی شام گزر جانا ہے
تم نے پوچھا ہے چلو تم کو بتا دیتے ہیں
جو ہم پہ گزری ہے تم کو بھی سنا دیتے ہیں
تیرے بعد ہمیں خود پہ بھی اعتبار نہیں
لفظ لکھتے ہیں لکھ کر مٹا دیتے ہیں
عشق کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
ہر کوئی رو کے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں
حاصل مجھے تو پہلے بھی نہیں تھا
کھویا میں نے تجھے آج بھی نہیں ہے
اب جو پوچھیں گے _____ لوگ تمہارا
ہائے___! کیسے کہوں گا چھوڑ گئے تم
اب حالِ دل نا پوچھ کہ تابِ بیاں نہیں
اب مہرباں نا ھو کہ ضرورت نہیں رھی
شام ہوتی ہے تو اک اجنبی دستک کے سوا
دل سے پہروں کوئی آواز بھرتی ہی نہیں
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ
الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ
جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر
اس وقت غور سے مرے چہرے کا حال دیکھ
وہ کسی اور کو میسر ہے،،،!!
میرا یے صدمہ خدا جانتا ہے..
درگزر کرتا میں تیری ہر ایک لغزش سے مگر
دل مرمت نہیں ہوتا، جذبات رفو نہیں ہوتے
مجھے دیکھو گے بھیڑ میں تو پہچان جاؤ گے
خُوش مزاج سا چہرہ بہت اُداس سی آنکھیں
احساس زندہ نہ ہو تو الفاظ بے آواز
احساس ہو بیدار تو خاموشی ہمکلام
تم کو سو لوگ میسر ہیں رفاقت کے لئے
تم "نہ ہونے" کی اذیت کو کہاں سمجھو گے
سنو! قصہ غمِ حیات نہ پوچھو ہم سے
بس جی رہے ہیں تو سمجھو کمال کر رہے ہیں!!
بس آخری ہچکی کا انتظار ہے
پھر یہ زندگی بہت آسان ہے