تُو سمجھ جائے گا پھر اپنے سوالوں کی چبھن, تُو کسی روز کٹہرے____میں کھڑا ہو تو سہی! تُو جو ہنستا ہے میرے__اعصاب کی کمزوری پر، تُو کسی خاص کو کچھ دن کے لیے کھُو تو سہی!
صرف کافور کی خوشبو رہ جاۓ گی چار سو تیرے پہنچنے سے پہلے دفنا دیا جاۓ گا مجھے
ان سے آواز کرب آتی ہے زرد پتوں پہ مت چلے کوئی
عرصہ بیتا زندگی بیتی سب کچھ بیتا لیکن پھر بھی جو عشق میں بیتی،عشق ہی جانے یا وہ جانے جس پے بیتی
موت نے آ کر____مجھے بچانا ہے میری قبر کے کتبے پہ شکریہ لکھنا
میں قہقہوں میں گِھرا ہوا لڑکا کسی دن کمرے میں مردہ ملوں گا...
تُمہارَے بَعد وَحشت٘ کِی سَـربَراہِی پـَر مُقـرَر ہـُوں تُمہارَے بَعد مُجھے سُکون سَے تَکلِیف ہُوتِی ہَے
اس نے چلتے چلتے لفظوں کا زہراب میرے جذبوں کی پیالی میں ڈال دیا
اک زخم جو میرے لیئے کعبے کی طرح ہے ہر شخص کو اندر سے دکھانے سے رہا میں!
ختم تھا ہم پہ محبت کا تماشہ گویا.. روح اور جسم کو ہر روز جدا کرتے ہیں زندگی ہم سے تیرے ناز اٹھائے نہ گئے سانس لینے کی فقط رسم اداکرتے ہیں..
عبادتوں میں مصروف ہیں سبھی اج کل! دلوں کو توڑ کر سجدوں میں رویا جا رہا ہے
صبّر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے پھر بھی سینے میں کوئی کتنے کلیجے رکھے؟ تو قضاء کرتا رہا ہم کو نمازوں کی طرح ہم نے عیدوں پہ تِرے نام کے روزے رکھے
اختلاف ، تردد ، ضد فطرت ہے میری تم مجھ سے متفق ہو ہی نہیں سکتے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
عجیب کیا ہے جو اکتا رہے ہو مجھ سے تم!! میں آج کل تو سبھی کو اضافی لگتا ہوں!! مرے رقیب، تیری طرح مطمئن تھا میں!! مجھے بھی لگتا تھا اس کو میں کافی لگتا ہو
منزل کو پتا ہی نہیں راستے نے کیا کیا چھینا ہے
میرے دشمن تیرا احسان ہے مجھ پر ورنہ” “اپنے عیبوں پے میرا دھیان کہاں تھا پہلے
احسان یہ رہا تہمت لگانے والوں کا مجھ پر” “اُٹھتی اُنگلیوں نے مجھے مشہور کر دیا