دِل کی بَغداد میں تہزیب کا چالیسواں ہے.. مسخ تاریخ کی چیخیں ہیں میرےکانوں میں.. مِلنے آئے ہیں کئی زخَم پُرانے مُجھ کو .. آج مصروف رہوں گا اِنہی مِہمانوں میں_
مگر مجھ کو یہ غم ہے کہ جب میں مروں گا یہ سب چاند ، تارے ، بہاریں ، خزائیں بدلتے ہوئے موسموں کے ترانے تیرا حُسن ، دنیا کے رنگیں فسانے یہ سب مل کر زندہ رہیں گے فقط میری اشک آلود ، آنکھیں نہ ہوں گی!
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار دِل نے کُچھ ٹُوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو عُمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھُریاں اتنی عین ممکن ہے کبھی ہم نے بھی مُحبت کی ہو