تم نے پوچھا ہے چلو تم کو بتا دیتے ہیں جو ہم پہ گزری ہے تم کو بھی سنا دیتے ہیں تیرے بعد ہمیں خود پہ بھی اعتبار نہیں لفظ لکھتے ہیں لکھ کر مٹا دیتے ہیں
عشق کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں ہر کوئی رو کے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا اور سکوں ایسا ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
اپنی سانسوں میں آباد رکھنا مجھے میں رہوں یا نہ رہوں یاد رکھنا مجھے
وقت سے پہلے بہت حادثوں سے لڑا ہوں میں اپنی عمر سے کئی سال بڑا ہوں
اس راہِ محبت کی تم بات نہ پوچھو، انمول جو انساں تھے بے مول بِکےھیں،
ہم خاک نشینوں کو بیزاری مواقف تھی ہم خاک نشینوں پر فرصت سے زوال آیا
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
آسان نہیں ہے مجھے پڑھ لینا لفظوں کی نہیں جذبات کی کتاب ہوں میں
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
کسی کو اداس پاؤ تو اسے سُن لیا کرو!! احساس سے، محبت سے ، بنا غرض کے!!
یونہی رنگت نہیں اُڑی میری ہجر کے سب عذاب چکھے ہیں
اب فقط دیکھتے ہی رہتے ہیں ورنہ ہم بھی تو بولتے تھے کبھی