مارا اس شرط پہ اب مجھ کو دوبارہ جائے نوک نیزہ سے مرا سر نہ اتارا جائے شام سے پہلے کسی ہجر میں مر جائے گا سورج اک بار مرے دل سے گزارا جائے اس کی یہ ضد کہ مرا قتل پس پردہ ہو مری خواہش مجھے بازار میں مارا جائے
ایک ہی سمجھنے والا تھا مجھے ہائے وہ بھی سمجھدار ہو گیا
جب اُس نے شریک کیا _________میری مُحبت میں کسی اُور کو پھر احساس ہوا کہ خُدا شرک کرنے والوں سے نفرت کُیوں کرتا ہے...
عمل پہ دخل پہ خلل پہ معذرت،، آپ ہی کے لہجے کی نقل پہ معذرت!!
حساب عشق دیکھا،عجب دیکھا،غضب دیکھا سب نفی،تجھے واحد،خود کو صفر دیکھا
تیرے سِتم کا دور رواں ہے ابھی گُناہوں کی سزا باقی ہے ابھی رہتے ہیں ارماں زِندگی کے ابھی تو موت کا مزّہ باقی ہے
یوں تو نا مسکرا میری بے بسی پے چند الفاظ جو بولوں تو رو دو گے
تم میری اذیت کی وہ حد ہو جسے میں سوچ کے رو پڑتا ہوں
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
اور ایک روز فسوں گر ''' وہ اسم بھول گیا کہ جس سے پھر ہمیں پتھر سے موم ہونا تھا
ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ کہ لطف کیا ہے میرے مہرباں، ستم کیا ہے
شفا دیتا تھا کبھی کسی کا مرھمی لہجا وہ مسیحا مجھے بیمار کر کے چھوڑ گیا