وہ ہے کہ مبتلائے جہاں، اُس کو خبر نہیں
میں نے بڑے ہی مان سے اُس کو پکارا تھا ؛))
میری خاموشی مسلسل کو...
اک مسلسل گلہ سمجھ لیجئے...
آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا...
اس کو میرا کہا سمجھ لیجئے....
ڈُھونڈتا پِھرتا ہُوں اِک شہر تخّیُل میں تُجھے
میرے پاس تیرے گھر کی نِشانی بھی نہیں
میں زندہ ھوں ابھی تک۔۔!!
یہی دکھ مجھے مار دے گا
آخری خواہش پوچھتے ہو تو سنو جانا
میرا جنازہ گزرے" تم تالیاں بجانا
ہم نے ماضی کا ہر ورق پلٹا۔۔۔!!
ہم کو ہر بات کا مَلال ہوا۔۔۔!!
کبھی خواب ادُھورے رہ جانے کا۔۔۔!!
کبھی لفظوں کا زَوال ہوا۔۔۔!!
کبھی وہ لمحے جو تَھم نہ سَکے۔۔۔!!
کبھی وہ قِصّے جو سِمَٹ گئے۔۔۔!!
کبھی اپنوں کی بے رُخی کا دُکھ۔۔۔!!
کبھی اپنوں سے ہی سوال ہوا۔۔۔!!
ہم نے چاہا تھا رُوشنیوں کو۔۔۔!!
مگر اندھیروں میں ڈال دیے گئے۔۔۔!!
جو دِل کے قریب تھا کل تلک۔۔۔!!
وہی آج سب سے نِڈھال ہوا۔۔۔
ایسا بھی تہی دست نہ ہوگا کوئی مُجھ سا
جس شخص کے دامن میں دُعائیں بھی نہیں ہیں
اب مُجھ کو پلٹ کر بھی نہیں دیکھنا پڑتا
اب میرے تعاقُب میں صدائیں بھی نہیں ہیں
میں گریزاں ہوں محبت سے تو سبب کچھ ہیں
ورنہ____ کون ہے جو چاہت کا طلب گار نہیں
میں تو سراپاۓ محبت ہوں مگر پھر بھی دوست
مجھے اس لفظ " محبت " کا اعتبار نہیں
ہم کہ دیکھیں کبھی دالان، کبھی سوکھا چمن.!!
_ اس پہ دھیمی سی تمنا کہ پکارے جائیں_!!
پھر سے اک بار تری خواب سی آنکھیں دیکھیں.!!
پھر ترے ہجر کے ہاتھوں ہی بھلے مارے جائیں-!
میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا
وہ سنگ لفظ پھینک کے کتنا اداس تھا
بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن
محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا
دشتِ وحشت میں سرابوں کی اذیت کے سِوا
اِک محبت تھی مرے پاس رہی وہ بھی نہیں
ہمارے ہاتھوں کی لکیروں میں یہی لکھا ہے__
ہمارے ہاتھوں سے سبھی ہاتھ چھڑاۓ جائیں.
روز ہوتی ہے میری میری سانسوں سے جھڑپ
روز اک سانس کو پھانسی چڑھا دیتا ہوں
قافِلے مَنزِلِ مَہتاب کی جانِب ہیں رَواں ،
مِری راہوں میں تیری زُلف کے بَل آتے ہیں ،
مَیں وہ آوارۂ تَقدِیر ہُوں یَزداں کی قَسَم ،
لوگ دِیوانہ سَمَجھ کَر مُجھے سَمجھاتے ہیں_!!
قافِلے مَنزِلِ مَہتاب کی جانِب ہیں رَواں ،
مِری راہوں میں تیری زُلف کے بَل آتے ہیں ،
مَیں وہ آوارۂ تَقدِیر ہُوں یَزداں کی قَسَم ،
لوگ دِیوانہ سَمَجھ کَر مُجھے سَمجھاتے ہیں_!!
وہ منزلیں بھی کھو گئیں,,,
وہ راستے بھی کھو گئے..!!!
جو آشنا سے لوگ تھے,,,
وہ اجنبی سے ہو گئے..!!!
نہ چاند تھا نہ چاندنی,,,
عجیب تھی وہ زندگی..!!!
چراغ تھے کہ بُجھ گئے,,,
نصیب تھے کہ سو گئے..!!!
یہ پوچھتے ہیں راستے,,,
رُکے ہو کس کے واسطے..!!!
چلو تم بھی اب چلو,,,
وہ مہربان بھی کھو گئے..!!!
خاموشیاں بھی خوفزدہ ہیں مجھ سے__
کچھ اس قدر کچلی ہے تو نے ذات میری__
آخری خواہش پوچھتے ہو تو سنو جانا
میرا جنازہ گزرے" تم تالیاں بجانا
خوابِ راحت تو میسر ہے مگر اس کے بغیر
سکھ وہ چادر ہے جسے تان کے دکھ ہوتا ہے
جو بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے بچھڑنے کیلیے
زندگی تجھ کو سفر مان کے دکھ ہوتا ہے
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں
ہمارے حصے کے لوگ بھی لوگ کھا گۓ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain