میں چپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا
وہ سنگ لفظ پھینک کے کتنا اداس تھا
بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن
محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا
دشتِ وحشت میں سرابوں کی اذیت کے سِوا
اِک محبت تھی مرے پاس رہی وہ بھی نہیں
ہمارے ہاتھوں کی لکیروں میں یہی لکھا ہے__
ہمارے ہاتھوں سے سبھی ہاتھ چھڑاۓ جائیں.
روز ہوتی ہے میری میری سانسوں سے جھڑپ
روز اک سانس کو پھانسی چڑھا دیتا ہوں
قافِلے مَنزِلِ مَہتاب کی جانِب ہیں رَواں ،
مِری راہوں میں تیری زُلف کے بَل آتے ہیں ،
مَیں وہ آوارۂ تَقدِیر ہُوں یَزداں کی قَسَم ،
لوگ دِیوانہ سَمَجھ کَر مُجھے سَمجھاتے ہیں_!!
قافِلے مَنزِلِ مَہتاب کی جانِب ہیں رَواں ،
مِری راہوں میں تیری زُلف کے بَل آتے ہیں ،
مَیں وہ آوارۂ تَقدِیر ہُوں یَزداں کی قَسَم ،
لوگ دِیوانہ سَمَجھ کَر مُجھے سَمجھاتے ہیں_!!
وہ منزلیں بھی کھو گئیں,,,
وہ راستے بھی کھو گئے..!!!
جو آشنا سے لوگ تھے,,,
وہ اجنبی سے ہو گئے..!!!
نہ چاند تھا نہ چاندنی,,,
عجیب تھی وہ زندگی..!!!
چراغ تھے کہ بُجھ گئے,,,
نصیب تھے کہ سو گئے..!!!
یہ پوچھتے ہیں راستے,,,
رُکے ہو کس کے واسطے..!!!
چلو تم بھی اب چلو,,,
وہ مہربان بھی کھو گئے..!!!
خاموشیاں بھی خوفزدہ ہیں مجھ سے__
کچھ اس قدر کچلی ہے تو نے ذات میری__
آخری خواہش پوچھتے ہو تو سنو جانا
میرا جنازہ گزرے" تم تالیاں بجانا
خوابِ راحت تو میسر ہے مگر اس کے بغیر
سکھ وہ چادر ہے جسے تان کے دکھ ہوتا ہے
جو بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے بچھڑنے کیلیے
زندگی تجھ کو سفر مان کے دکھ ہوتا ہے
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں
ہمارے حصے کے لوگ بھی لوگ کھا گۓ
آخری بات
"آپ جائیے، اجازت ہے"
بس اتنی سی بات تھی اور
میرا حال، حالِ دل، تنفس
سب بگڑ گیا!
