کیوں رنجشیں اب اور بڑھانے کے لیے جاؤں کیوں پھر سے میں رسوائی اٹھانے کے لیے جاؤں رکّھا نہ ذرا جس نے بھرم میری وفا کا اے دل میں اسے کیسے منانے کے لیے جاؤں
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی اُن کے در کبھی در بدر غمِ عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہم ہیں جدا جدا وہ جدا ہوئے تو سنور گئے ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے
کبھی زلف پر کبھی چشم پر کبھی تیرے حسیں وجود پر جو پسند تھے میری کتاب میں وہ شعر سارے بکھر گئے
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یونہی سر جھکا کے گزر گئے
کبھی رُک گئے کبھی چل دئیے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے یونہی عمر ساری گزار دی یونہی زندگی کے ستم سہے
تمہاری آنکھوں میں چمک میری زندگی کو روشن کرتی ہے۔
آپ کریں گے ہماری ذات پہ تبصرہآپ کب سے اس قبل ہوگئے
جب مالک کی لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہےتو سب منصوبے اور پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر