راتیں بھی مدیـنے کی باتیں بھی مدینے کی جینے میں یہ جینا ہے کیا بات ہے جینے کی تـــعریف کے لائـق جب الفاظ نہیں ملتے تعریف کرے کوئی کس طرح مدینے کی عرصـہ ہوا طــیبہ کــی گلیوں سے وہ گزرے تھے اِس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی وہ اپــنی نــگاہوں ســے مســـتانہ بناتے ہیں زحمت بھی نہیں دیتے میخوار کو پینے کی یہ زخـــم ہے طیبہ کا یہ سب کو نہیں ملتا کوشش نہ کر کوئی اِس زخم کو سینے کی طوفان کی کیا پرواہ یہ بھول نہیں سکتا ضــامـن ہے دعا ان کی اُمّت کے سفینے کی ہر سـال کے آنے کا اعزاز ملا مرزا سرکار بناتے ہیں تقدیر کمینے کی