یاد ہے اب تلک وفا اُس کی ذات میری رہی سدا اُس کی کاش کرتے کوئی بھلا اس کا کاش لیتے کوئی دعا اُس کی کتنی بے فیض تھیں مری آنکھیں کتنی کم ظرف تھی ادا اُس کی چند لمحوں میں بھول جاتا ہوں یاد بھی کم ہے دیر پا اُس کی اب بھی آنکھوں سے بہہ رہا ہے وہ اب بھی کانوں میں ہے صدا اُس کی