ہزار بار مرنا چاہانگاہوں میں ڈوب کرہم نے فرازؔ وہ نگائیں جھکالیتی ہے ہمیں مرنے نہیں دیتی۔
کھلے تو اب بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن نہ میرے زخم کی صورت ، نہ تیرے لب کی طرح۔
اب تیرے ذکرپہ ہم بات بدل دیتے ہیں کتنی رغبت تھی تیرے نام سے پہلے پہلے۔
ٹپک پڑتے ہیںآنسو جب یاد تمہاری آتی ہے فرازؔ یہ وہ برسات ہے جس کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سواس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہی ۔
کُچھ لڑکیاں گھر سے اتنا بڑا پرس لے کے نکلتی ہے جیسے کسی کی مرغی اٹھانی ہو������
وہ چائے کا شوقین لڑکا میں کچن سے فرار لڑکی
جرابیں ہمیشہ دھو کر پہنا کریں ایسا نہ ہو کامیابی آپ کے قدم چومنے آئے اور فوت ہوجائے��������
وہ چاند ����دیکھنے آیا تھا... میرے بھائیوں نے تارے ��دیکھا دیے۔
جب وہ چھوڑ گیا تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ حیران الگ پریشان الگ سنسان الگ بیان الگ
اسنے گڑیا کو بھی گڈے سے جدا کر ڈالا خود جو بچھڑی وہ محبوب سے اپنے
اے خدا میرے دوست کو سلامت رکھنا ورنہ میری شادی میں برتن صاف کون کرے گا
پہلےموبائل سکول لے جاتےہوئے ڈر لگتاتھا اب گھر بھول جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
کسی سے دل لگانے سے اچھا ہے بندہ کریم لگا لے دل بهى مطمئن اور رنگ بھی چٹا
لڑکا: پیار ایک وائرس ہے.... امی: اور میری چپل اینٹی وائرس
بہت سوچا لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی.�� کشتی وہاں کیسے ڈوبی جہاں پانی کم تھا..��
اس سے زیادہ زلالت کیا ہو گی وصی �� وہ بہت ہنسی مگر پھر بھی نہ پھنسی��