حضرت علی علیہ السلام کا ایک دن کربلا سے گزر ہوا تو فرمایا یہ سر زمین عاشقوں کی قربان گاہ اور ایسے شہیدوں کی جائے شہادت ہے کہ اولین و آخرین کے شہداء انکے خاک پا کو نہیں چھو سکیں ہیں۔ (تہذيب، ج 6، ص73 / بحارالانوار، ج 98، ص 116)
غمِ حسینؑ ہر اک شہر ہر دیار گیا جہاں نا قافلہ پہنچا وہاں غبار گیا تھی کربلہ میں اگر جنگ شہزادوں کی؟ قلم میں دم ہے تو لکھو حسینؑ ہار گیا پیر سید نصیر الدین شاہ صاحب رح
بلا کے غم اٹھاۓ جا رہے ہیں جفاکے تیر کھاۓ جا رہے ہیں فدا کرنے کو دین مصطفیٰ پر علی اکبر سجاۓ جا رہے ہیں قدم دوشِ نبوت پر تھے جن کے وہ نیزوں سے گراۓ جارہے ہیں ہوا تھا جون قائم جن سے پردہ وہ بازاروں میں لاۓ جا رہے ہیں..
اے عزادارِ حسینی، یہ چلن زندہ رہے۔ ہاں عزا خانے سجانے کی لگن زندہ رہے... سب عزا خانے ہمارے، سب ہی اپنی مجلسیں اے دعائے سیدہ (س)! یہ اپنا پن زندہ رہے...
پیاسے پہ عجب وقت قیامت کا پڑا ہے.. اِک لاش ابھی لایا ہے، اِک لینےچلا ہے.. یہ حر کا ہے، وہ بھائی کا، یہ بیٹے کا لاشہ.. زہرا (س) کا پسر گنج شہیداں میں کھڑا ہے..