جب کسی ایک کو رہا کیا جائے سب اسیروں سے مشورہ کیا جائے رو لیا جائے اپنے ہونے پر اپنے مرنے پہ حوصلہ کیا جائے میری نقلیں اتارنے لگا ہے اب آئینے کا بتاؤ کیا کیا جائے میرا میرا ایک یار سندھ کے اس پار نہ خداؤں سے رابطہ کیا جائے
پہلے اس کی خوشبو میں نے خود پر طاری کی پھر میںنے اس پھول سے ملنے کی تیاری کی اتنا دکھ ےھا مجھ کو تیرے لوٹ کے جانے کی مجھ سے گھر کے دروازوں نے بھی منہ ماری کی
میں وہ سبزہ تھا جسے روند دیا جاتا ہے میں وہ جنگل تھا جسے کاٹ دیا جاتا ہے میں وہ در تھا جسے دستک کی کمی کھتی ہے میں وہ منزل تھا جہاں ٹوٹی سڑک جستی ہے میں وہ گھر تھا جسے آباد نہیں کرتا کوئی میں تو وہ تھا جسے یاد نہیں کرتا کوئی
جب اگلے سال یہی وقت آرھا ہوگا یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہوگا تو میرے سامنے بیٹھا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ آتے لمحوں میں جینا بھی اک سزا ہوگا بچھڑنے والے تجھے دیکھ دیکھ سوچتا ہوں تو پھر ملے گا تو کتنا بدل چکا ہوگا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain