اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہل دل ، کبھی عادی تھے انتظار کے بھی
مہینوں بعد ملنے کی خوشی اپنی جگہ
وہ ظالم جب بچھڑتا ہے تو حالت اور ہوتی ہے
پہلے خوشبو کے مزاجوں کو سمجھ لو
پھر گلستان میں کسی گل سے محبت کرنا
اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہل دل ، کبھی عادی تھے انتظار کے بھی
کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر
ہم رشک آسمان تھے ابھی کل کی بات ہے
انھیں جو ناز ہے خود پر نہیں بے وجہ
کہ جس کو ہم نے چاہا ہو، وہ خود کو عام کیوں سمجھے
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا
ہمیں اب کھو کہ کہتا ہے مُجھے تُم یادآتے ہو
کِسی کا ہو کہ کہتا ہے مُجھے تُم یادآتے ہو
جن کے آنگن میں غریبی کا شجر ہو
اُن کی ہر بات زمانے کو بُری لگتی ہے
اصولِ مُحبت میں تُم خود بے وفا ہو
وہ جو بچھڑا تو تُم مَر کیوں نہیں گئے
اسکے سب جھوٹ بھی سچ ہیں
شرط اتنی ہے وہ بولے تو سہی
اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے اس کو ڈھونڈ لاو اداس لوگو
ذکرشبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
آوارہ –و- بدنام ہے مُحسن تو ہمیں کِیا
خُود ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھل جائے گا آخر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی
مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنہوں نے کی
اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تیری راہ گزر پر رکھا
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain