داستاں ہوں میں اِک طویل مگر
تو جو سُن لے تو مختصر بھی ہوں
تجھ میں یہ عیب ہے کہ خوبی ہے
جو تجھے دیکھ لے وہ تیرا ہو جائے
محضِ عشق سے کب کون بچ کے نکلا ہے
تو بچ گیا ہے تو خیرات کیوں نہیں کرتا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
آو چُپ کی زُبان میں 🙂
اِتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں
تو نہیں تھا مگر یہ دلاسہ ضروری تھا میرے لیے
تو یہیں ہے میں خود کو بتاتی رہی مسکراتی رہی
تمہارے فون میں اک یاد مرنے والی ہے
جو ہوسکے مری تصویر کی مدد کرنا🥺
اب میرے حال سے کیوں تم کو پریشانی ہے
اب تو تم مجھ سے محبت بھی نہیں کرتے ہو
تم اب تک منافق دلوں میں رہے ہو
میرے دل کی آب و ہوا مختلف ہے
کسی کے صبر کا امتحاں نہ لیا کرو
میں نے ایسا کرنے والوں کو اکثر پچھتاتے دیکھا ہے
کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ہزار زخم بھر جاتے ہیں
مگر سچ تو یہ ہے کے ہم درد کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں
آنسو کا وزن تو نہیں ہوتا پھر بھی
ان کے گر جانے سے دل ہلکا ہوجاتا ہے
جتنا زیادہ سوچوگے اتنی زیادہ اذیت میں رہو گے
یا تو اپنے آپ کو مضبوط کرلو یا مصروف کرلو
الفت بدل گئی کبھی نیت بدل گئی
خود گرز جب ہوۓ تو پھر سیرت بدل گئی
اپنا قصور دوسروں پرڈال کر کچھ لوگ
سمجھتے ہیں حقیقت بدل گئی
نہ جانے کونسی سازشوں کا شکار ہو گئے
کہ جتنے صاف دل تھے اتنے داغدار ہوگے
ہو سکتا ہے جس چیز کے لیے تم روتے ہو
وُہ بس تُم سے ایک دعا دور ہو
بہت ڈر لگتا ہے مجھے ان لوگوں سے جو باتوں میں
مٹھاس اور دل میں زہر رکھتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain