نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم
عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے
تم تو میرے ساتھ رہو گے میں تنہا رہ جاؤں گی
کرم والوں کی بستی میں ، صدائیں دِی بہت ہم نے
سبھی نے کھڑکیاں کھولیں ، کِسی نے در نہیں کھولا
حال یہ ہے کہ اپنی حالت پر
غور کرنے سے بچ رہی ہوں میں🙂
خاموشیاں سننا سیکھو
ان میں صرف سچ ہوتا ہے
تم نے بہت شراب پی، اس کا سبھی کو دٌکھ ہے جونؔ
اور جو دٌکھ ہے وہ یہ ہے، تم کو شراب پی گئی
نکال ڈالئیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجئے- ہم میں وہ بات ہی نہ رہی
تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو آؤں میں
دل سے ستم کی بے سر و کاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
وہ نام ہوں کہ جس پہ ندامت بھی اب نہیں
وہ کام ہیں کہ اپنی جدائی کماؤں میں
کیوں کر ہو اپنے خواب کی آنکھوں میں واپسی
کس طور اپنے دل کے زمانوں میں جاؤں میں
اک رنگ سی کمان ہو خوشبو سا ایک تیر
مرہم سی واردات ہو اور زخم کھاؤں میں
شکوہ سا اک دریچہ ہو نشہ سا اک سکوت
ہو شام اک شراب سی اور لڑکھڑاؤں میں
پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کون سی بستی سے لاؤں میں
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
تم جب آؤگے تو کھویا ہوا پاؤگے مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے
۔
وقت کی التجا کچھ اور ہے!
کون جی سکا ہے زندگی کو اپنی مرضی سے
دل ❤️ چاہتا کچھ اور ہے ہوتا کچھ اور ہے
زندہ رہنا چاہو توموت قیامت ہے
اور مرنا چاہو تو زندگی قیامت ہے-
ماں کی گود سے قبر کی دیوار تک زندگی کے ہر پھلوں پر نظر ڈال کر دیکھ الله کے سوا کوئی کام نہیں آتا
انسان امیدوں سے بندھا ایک ضدی پرندہ ہے
جو گھائل بھی امیدوں سے ہے اور زندہ بھی امیدوں پر ہے
رشتوں کے بازار میں آج کل وہ لوگ ہمیشہ اکیلے ہی پائے جاتے ہیں جو دل اور زبان کے سچے ہوتے ہیں
انسان کی سب سے بری پریشانی یہ ہے کہ انسان تقدیر سے بہت زیادہ مانگتا ہے اور وقت سے پہلے چاہتا ہے
وقت مٹی ڈال دیتا ہے یادوں پر آرزوں پر غلطیوں پر چاہتوں پر یہاں تک کہ رشتوں پر بھی
عمر اور زندگی میں کیا فرق ہے بہت ہی خوبصورت جواب
جو اپنوں کے بنا گزرے وہ عمر اور جو اپنوں کے ساتھ گزرے وہ زندگی
وقت گہرے سمندر میں گرا ہوا موتی ہے
جس کا دوبارہ ملنا نہ ممکن ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain