تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
قسمیں وعدے رہ جاتے ہیں انساں آدھے رہ جاتے ہیں خط سے خوشبو اڑ جاتی ہے کاغذ سارے رہ جاتے ہیں رب کی مرضی ہی چلتی ہے اور ارادے رہ جاتے ہیں لب پر انگلی رکھ لیتی ہو ہم چپ سادھے رہ جاتے ہیں اس کے رعب حسن کے آگے مارے باندھے رہ جاتے ہیں
اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا دل میں اک خواب تھا اور خواب کے اندر کوئی تھا ہم پسینے میں شرابور تھے اور دور کہیں ایسے لگتا ہے کہیں تخت ہوا پر کوئی تھا اس کے باغات پہ اترا ہوا تھا موسم رنگ قابل دید ہر اک سمت سے منظر کوئی تھا شک اگر تھا بھی تو مٹتا گیا ہوتے ہوتے اور اب پختہ یقیں ہے کہ سراسر کوئی تھا اس دل تنگ میں کیا اس کی رہائش ہوتی یعنی اندر تو نہیں تھا مرے باہر کوئی تھا شکل کچھ یاد ہے کچھ بھول چکی ہے اس کی کوئی دن تھے کہ مکمل مجھے ازبر کوئی تھا دائرے میں کبھی رکھا ہی نہیں اس نے قدم اور محبت کے مضافات میں اکثر کوئی تھا میں اسے چھوڑ کے خود ہی چلا آیا تھا کبھی اور اب پوچھتا پھرتا ہوں مرا گھر کوئی تھا یاوہ گو تھا ظفرؔ اس عہد خرابی میں کوئی یاوہ گو ہی اسے کہتے ہیں سخن ور کوئی تھا ظفر اقبال
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا اس ایک دشت میں سو شہر ہو گئے آباد جہاں کسی نے کبھی کارواں لٹایا تھا وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا مرے وجود سے گلزار ہو کے نکلی ہے وہ آگ جس نے ترا پیرہن جلایا تھا مجھی کو طعنۂ غارت گری نہ دے پیارے یہ نقش میں نے ترے ہاتھ سے مٹایا تھا اسی نے روپ بدل کر جگا دیا آخر جو زہر مجھ پہ کبھی نیند بن کے چھایا تھا ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرت تعمیر خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا ظفر اقبال