kise k jane baad uski yaad mn gum rehna khod ko behal karna khana peena chhor dena buri bat hy wo apko chhor gaya to ap mn koi kami nh balky uska b bhala apka b Q k khuda ne jisko jis k liye select kiya hoga wo usi ko milga or har din ka aaghaz muskura k karen yaqeen mano life mn khushi he khushi aaegi or mn b try kar raha🤗🤗🤗🤗😊😊🙂🙂🙃🙃
i know mera nam dekh k ap follow krty waqt ya cmnt krty waqt apko ajeeb lag raha hoga k ye sach mn lofar hoga but you know k mn ny aisa name q rakha q k mujhy kise se bat nh krni or mn kehtata tha bs akela rahon or meri post pr koi na aay baqi insan ki pehchan to uski zuban se hoti hy nam ya shakl se nh or ye baten buhat kam log janty hn
کوئی امّید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی موت کا ایک دن معین ھے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟ آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد پر طبعیت ادھر نہیں آتی ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں ورنہ کیا بات کر نہیں آتی کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں میری آواز گر نہیں آتی داغِ دل گر نظر نہیں آتا بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی موت آتی ہے پر نہیں آتی کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی
تو جب میرے گھر آیا تھا میں اک سپنا دیکھ رہا تھا تیرے بالوں کی خوشبو سے سارا آنگن مہک رہا تھا چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں سانولا مکھڑا لو دیتا تھا تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی میں بھی کچھ کچھ جاگ رہا تھا میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے تیرا ماتھا بھی جلتا تھا دو روحوں کا پیاسا بادل گرج گرج کر برس رہا تھا دو یادوں کا چڑھتا دریا ایک ہی ساگر میں گرتا تھا دل کی کہانی کہتے کہتے رات کا آنچل بھیگ چلا تھا رات گئے سویا تھا لیکن تجھ سے پہلے جاگ اٹھا تھا
آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نگاہیں کیا بات ہے میں وقت پے گھر کیوں نہیں جاتا وہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں جو دور ہے وہ دل سے اتر کیوں نہیں جاتا میں اپنی ہی الجھی ہوئی راہوں کا تماشہ جاتے ہیں جدھر سب میں ادھر کیوں نہیں جاتا وہ خواب جو برسوں سے نہ چہرہ نہ بدن ہے وہ خواب ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتا
بہت رویا وہ ہم کو یاد کر کے ہماری زندگی برباد کر کے پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے مگر ہاں منت صیاد کر کے بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن گیا ہے روح کو آباد کر کے ہر آمر طول دینا چاہتا ہے مقرر ظلم کی میعاد کر کے
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو باندھ کر سنگ وفا کر دیا تو نے غرقاب کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
مرحلہ رات کا جب آئے گا جسم سائے کو ترس جائے گا چل پڑی رسم جو کج فہمی کی بات کیا پھر کوئی کر پائے گا سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں لفظ مفہوم سے کترائے گا اعتبار اس کا ہمیشہ کرنا وہ تو جھوٹی بھی قسم کھائے گا تو نہ ہوگی تو پھر اے شام فراق کون آ کر ہمیں بہلائے گا ہم اسے یاد بہت آئیں گے جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا کائنات اس کی مری ذات میں ہے مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جس میں مخل زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایہ نہ تھا ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی پاس اپنے اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیلؔ ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا