زیادہ تر اچھے لوگوں کا المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ حملے کے وقت حاضر دماغی اور فوری جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں دوسرے لوگ ہمیشہ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور غیر منصفانہ انداز میں ایسی مختصر اور فیصلہ کن لڑائیاں جیت لیتے ہیں جو دل کو زخمی کر جاتی ہیں مسالم مزاج اور صاف ضمیر رکھنے والا شخص اس وقت موزوں جواب سوچ ہی نہیں پاتا اور یہ جواب اکثر تب ذہن میں آتا ہے جب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور بازی ہاتھ سے جا چکی ہوتی ہے یہ کوئی ناسمجھی نہیں بلکہ فطرت کی وہ معصومیت ہے جو حد سے زیادہ پاکیزہ ہے
پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا اِک شخص اندھیروں میں اُجالوں کی طرح تھا خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا وہ علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا اُلجھا ہوا ایسا کہ کبھی سلجھ ہی نہ پایا سُلجھا ہوا ایسا کہ مِثالوں کی طرح تھا وہ مِل تو گیا تھا مگر اپنا ہی مقدر شطرنج کی اُلجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا وہ روح میں خوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل جو دور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا
شدید دُکھ تھا اگرچہ تِری جُدائی کا ہُوا ہے رنج ہمیں تیری بے وفائی کا تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہو گا ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا جو میرے سر سے دوپٹہ نہ ہٹنے دیتا تھا اُسے بھی رنج نہیں میری بے ردائی کا سفر میں رات جو آئی تو ساتھ چھوڑ گئے جنھوں نے ہاتھ بڑھایا تھا رہنمائی کا رِدا چِھنی مِرے سَر سے، مگر مَیں کیا کہتی کٹا ہُوا تو نہ تھا ہاتھ میرے بھائی کا مِلے تو ایسے، رگِ جاں کو جیسے چُھو آئے جُدا ہُوئے تو وہی کرب نارسائی کا کوئی سوال جو پُوچھے، تو کیا کہوں اُس سے بچھڑنے والے ! سبب تو بتا جُدائی کا مَیں سچ کو سچ بھی کہوں گی، مجھے خبر ہی نہ تھی تجھے بھی علم نہ تھا میری اِس بُرائی کا نہ دے سکا مجھے تعبیر ، خُواب تو بخشے مَیں احترام کروں گی ، تِری بڑائی کا پروین شاکر ❤️
بیا که دې وروسته پرې خفګان کيږي نو نه دې کيږي ستا که په ما پسې ارمان کيږي نو نه دې کيږي ما سره خوا کې په غريب سړي کوټه راڅاڅي زما په فصل که باران کيږي نو نه دې کيږي اوس هغه چم ته نه ځم اوس هغه کوڅې ته نه ځم اوس که په ما د چا ګومان کيږي نو نه دې کيږي د يار غمونو مې عاجزه د زړه زور اوبه کو اوس که صفت زما د توان کيږي نو نه دې کيږي بيتونه ـ زيت الرحمن عاجز
آنکھ میں اشک سموتے ہوئے مر جاتے ہیں اتنا روتے ہیں کہ روتے ہوئے مر جاتے ہیں موت کا سامنا کرنا نہیں پڑتا اُن کو اچھے رہتے ہیں جو سوتے ہوئے مر جاتے ہیں اے مسیحا تو کہاں ہے کہ مجھ ایسے بیمار اس جہاں میں ترے ہوتے ہوئے مر جاتے ہیں پیڑ سے ٹیک لگاتے ہیں گھڑی بھر کے لیے زخم کو خون سے دھوتے ہوئے مر جاتے ہیں جس کی لہروں سے گزرتی ہیں ہماری لہریں ہم وہی بحر بلوتے ہوئے مر جاتے ہیں چاند تحلیل نہیں ہوتا کبھی پانی میں عکس تمثیل نیوتے ہوئے مر جاتے ہیں نیند اسرار اُلٹ دیتی ہے اپنے اور ہم خواب کا ہار پروتے ہوئے مر جاتے ہیں بوجھ سانسوں کا کبھی کم نہیں ہوتا آزر سب اسی بوجھ کو ڈھوتے ہوئے مر جاتے ہیں دلاور علی آزر
عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بنایا کرتے تھے ؎ لیاقتؔ جعفری
لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ اپنے خدوخال، گورے رنگ اور لمبے قد کی وجہ سے خوبصورت لگتے ہیں۔ حالانکہ ہر وہ انسان خوبصورت ہے جو ایک ہمدرد روح اور خوبصورت مسکراہٹ کا مالک ہے