وہ ایک شخص مرا ہم مزاج پہلے تھا بدل گیا وہی کل میں جو آج پہلے تھا بشر کی پیاس بشر کے لہو سے بجھتی ہے جہاں میں کیا یہی خونی رواج پہلے تھا تمام وقت گزرتا ہے لغویات میں اب ہمارے سر پہ بہت کام کاج پہلے تھا یہ ایسا دور کہ انسانیت بلکتی ہے سکوں سے پر بڑا سادہ سماج پہلے تھا نہ دیکھی دہر نے اس کی طرح ضیا اب تک عجیب بجھتا ہوا اک سراج پہلے تھا غبار و خاک میں وہ سب بدل گئے قدسیؔ جواہرات کا گھر بھر اناج پہلے تھا
تیرے بدلے ہوئے لہجے سے کہیں بہتر ہے ہم جدائی کی اذیت ہی گوارا کر لیں..... کچھ خدا ایسا کرے تجھ کو محبت ہو جائے تُو پکارے ہمیں ہم تجھ سے کنارا کر لیں.......