خلاصہ: 1. عالمِ ارواح: روحیں تخلیق کے وقت اللہ کی بارگاہ میں تھیں اور اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ 2. رحمِ مادر میں روح کا داخلہ: 120 دن کے بعد فرشتہ ماں کے رحم میں روح پھونکتا ہے۔ 3. نیند: نیند کے دوران روح عارضی طور پر قبض کی جاتی ہے اور جاگنے پر واپس کی جاتی ہے۔ 4. موت: زندگی کے اختتام پر روح کو مستقل طور پر قبض کیا جاتا ہے۔ 5. برزخ: موت کے بعد روح برزخ میں اپنے اعمال کے مطابق سکون یا عذاب میں رہتی ہے۔ 6. قیامت: روح کو جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ آخری حساب کتاب ہو سکے۔ یہ تمام مراحل قرآن و حدیث کے مطابق واضح اور تفصیلی ہیں۔
حدیث مبارکہ: حضرت براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موت کے وقت روح کے نکلنے کے منظر کو یوں بیان کیا: "مومن کی روح اس کے جسم سے اس طرح نکلتی ہے جیسے پانی مشک سے بہہ جاتا ہے، اور فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔" (مسند احمد: 18534) جبکہ بدکار انسان کی روح کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے کہ یہ عمل بہت سخت اور دردناک ہوتا ہے۔ 5. موت کے بعد روح کا مقام موت کے بعد روح "برزخ" میں داخل ہو جاتی ہے۔ برزخ ایک درمیانی دنیا ہے جو موت اور قیامت کے درمیان کا مرحلہ ہے۔ قرآن مجید: "اور ان کے آگے ایک پردہ (برزخ) ہے قیامت کے دن تک۔" (سورۃ المؤمنون: 100) حدیث مبارکہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کےگڑھوں میں سےایک گڑھا ہے۔ مومن کی روح آرام میں ہوتی ہےاور بدکارکی روح عذاب میں۔
قرآن مجید: "اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو نہیں مریں ان کی روحیں ان کے سونے کے وقت قبض کر لیتا ہے۔ پھر جن کے بارے میں وہ موت کا فیصلہ کرتا ہے انہیں روک لیتا ہے اور باقی کو مقرر وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔" (سورۃ الزمر: 42) حدیث مبارکہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نیند موت کی بہن ہے۔" (مسند احمد: 25667) نیند کے دوران روح جسم سے عارضی طور پر جدا ہوتی ہے اور جب انسان جاگتا ہے تو واپس آ جاتی ہے۔ یہ عمل روزانہ انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ 4. موت کے وقت روح کا قبض کیا جانا جب انسان کی زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح کو فرشتے کے ذریعے قبض کر لیتا ہے۔ قرآن مجید: "کہو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرے گا پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔" (سورۃ السجدہ: 11)
حدیث مبارکہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے رحم میں 40 دن تک نطفہ کی شکل میں ہوتی ہے، پھر اتنے ہی دن لوتھڑا بنتا ہے، پھر اتنے ہی دن گوشت کا ٹکڑا بنتا ہے۔ پھر ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور چار باتیں لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی عمر، اس کے اعمال، اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا خوش بخت۔" (صحیح بخاری: 3208، صحیح مسلم: 2643) یہاں واضح ہوتا ہے کہ انسان میں روح 120 دن کے بعد ڈالی جاتی ہے، اور اسی وقت اس کی تقدیر بھی لکھ دی جاتی ہے۔ 3. روح کا نیند کے دوران قبض اور واپس کیا جانا نیند کو قرآن و حدیث میں "چھوٹی موت" قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نیند کے دوران انسان کی روح کو قبض کر لیتا ہے اور پھر جب وہ جاگتا ہے تو روح واپس لوٹا دی جاتی ہے۔
یہ واقعہ "عہدِ الست" کہلاتا ہے۔ اس وقت تمام روحوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا اور یہ اقرار قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کی بنیاد ہوگا۔ 2. ماں کے رحم میں روح ڈالنے کا عمل انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذکر قرآن مجید میں بار بار کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ کس وقت روح انسان کے جسم میں داخل ہوتی ہے: قرآن مجید: "پھر ہم نے اسے نطفہ کی شکل میں ایک محفوظ جگہ (رحم) میں رکھا۔ پھر نطفہ کو خون کے لوتھڑے کی شکل دی، پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا، پھر گوشت کے ٹکڑے سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے اسے ایک نئی مخلوق کی صورت دے دی۔ تو بڑا بابرکت ہے اللہ، سب سے بہتر تخلیق کرنے والا۔" (سورۃ المؤمنون: 13-14)
انسان میں روح کا عمل اور اس کے مختلف مراحل قرآن و احادیث میں بڑے واضح انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ روح کے انسان سے تعلق اور اس کی مختلف کیفیات کو سمجھنے کے لیے ہم درج ذیل نکات پر غور کریں گے: 1. روح کا تخلیق سے قبل مقام (عالمِ ارواح) قرآن و حدیث کے مطابق، روحوں کی تخلیق کا پہلا مقام "عالمِ ارواح" ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے تمام روحوں کو پیدا کیا اور ان سے عہد لیا کہ وہ اللہ کو اپنا رب مانیں گی۔ قرآن مجید: "اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی اور ان سے ان کے اوپر گواہی لی (کہا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: ہاں، ہم نے گواہی دی۔ تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔" (سورۃ الاعراف: 172)
نفاق ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی منافقین کی علامات اور ان سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "إِنَّ ٱلْمُنَٰفِقِينَ فِى ٱلدَّرْكِ ٱلْأَسْفَلِ مِنَ ٱلنَّارِ" (بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے) – سورہ النساء 145 اسی طرح حدیث شریف میں آتا ہے: "منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے" (بخاری و مسلم) لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قول و فعل میں سچائی اور دیانت داری اختیار کریں اور نفاق سے بچیں۔ ساتھ ہی ایسے لوگوں سے محتاط رہیں جو نفاق کی صفات رکھتے ہیں تاکہ ہم خود بھی ان کے اثر سے محفوظ رہیں۔ اچھی بات پھیلانا صدقہ جاریہ ہے۔
میری انگلش کی ٹیچر نے مجھے بہت سالوں بعد ایک انگریزی میں پیغام بھیجا جواب میں میں نے انکے ساتھ جیسے ہی فرنچ زبان میں بات کرنی شروع کی تو وہ غصہ ہوگئیں۔ ہم تو کبھی غصہ نہیں ہوئے تھے بچپن میں جب ہمکو انگلش نہیں آتی تھی۔ اور وہ ہمیں ڈنڈے مار مار کے انگریزی کا سبق یاد کرواتیں تھی۔ 🙂
کوڈ یا سسٹم میں علامت: کچھ مخصوص سسٹمز یا پروگرامنگ زبانوں میں "Qqqq" کسی خاص ترتیب یا مخصوص علامت کا حصہ ہو سکتا ہے، مگر یہ بہت نایاب اور مخصوص ہوگا۔ 4. فن یا موسیقی میں استعمال: کبھی کبھار آرٹسٹ یا تخلیقی افراد کچھ ایسی بے معنی سی علامات استعمال کرتے ہیں جیسے "Qqqq"، جو صرف ان کے کام کی ایک شناخت یا نشان ہو۔
کچھ دیر پہلے مجھ سے میرے ایک بچے نے پوچھا سر Qqqq کا کیا مطلب ہے ؟ میں نے اسکو کہا "Qqqq" کا کوئی رسمی یا معروف مطلب نہیں ہے، لیکن یہ کچھ مختلف طریقوں سے استعمال ہو سکتا ہے۔ یہاں چند ممکنہ وضاحتیں ہیں: 1. ٹائپنگ کی غلطی: یہ عموماً کسی لفظ یا حرف کے ٹائپ کرتے وقت ہونے والی غلطی ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر آپ کی انگلیاں کی بورڈ پر پھسل جائیں۔ 2. نیٹ پر یا فورمز میں مذاق یا گپ شپ: کچھ فورمز یا چیٹ رومز میں لوگ کبھی کبھار "Qqqq" استعمال کرتے ہیں تاکہ ایک ہی حرف کو زیادہ دہرایا جائے، یہ ایک غیر رسمی طریقہ ہو سکتا ہے کسی بات کو بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنے کا یا طنز کرنے کا۔