Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

بہت سے طریقوں سے، طبیعیات قدیم یونانی فلسفہ سے نکلتی ہے۔ تھیلس کی مادے کی خصوصیت کی پہلی کوشش سے لے کر ڈیموکریٹس کی کٹوتی تک کہ مادے کو کرسٹل لائن کے بطلیما کے فلکیات میں تبدیل ہونا چاہیے، اور ارسطو کی کتاب فزکس (طبیعیات پر ایک ابتدائی کتاب، جس میں حرکت کا تجزیہ کرنے اور اس کی تعریف کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایک فلسفیانہ نقطہ نظر)، مختلف یونانی فلسفیوں نے فطرت کے اپنے اپنے نظریات کو آگے بڑھایا۔ 18ویں صدی کے آخر تک طبیعیات کو فطری فلسفہ کہا جاتا تھا۔
19ویں صدی تک، طبیعیات کو فلسفہ اور دیگر علوم سے الگ ایک نظم و ضبط کے طور پر سمجھا گیا۔ طبیعیات، باقی سائنس کی طرح، طبیعی دنیا کے علم کو آگے بڑھانے کے لیے سائنس کے فلسفے اور اس کے "سائنسی طریقہ کار" پر انحصار کرتی ہے۔

MAKT_PAK
 

یہ فوٹو الیکٹرک اثر اور الیکٹران مداروں کی مجرد توانائی کی سطحوں کی پیش گوئی کرنے والے ایک مکمل نظریہ کے ساتھ، بہت چھوٹے پیمانے پر کلاسیکی طبیعیات پر کوانٹم میکانکس کے نظریہ کو بہتر بنانے کا باعث بنا۔
کوانٹم میکانکس کا آغاز ورنر ہائزنبرگ، ایرون شروڈنگر اور پال ڈیرک نے کیا تھا۔ اس ابتدائی کام، اور متعلقہ شعبوں میں کام سے، پارٹیکل فزکس کا معیاری ماڈل اخذ کیا گیا تھا۔ 2012 ءمیں CERN میں ہگز بوسون سے مطابقت رکھنے والے خواص کے ساتھ ایک ذرہ کی دریافت کے بعد، معیاری ماڈل کے ذریعہ پیش گوئی کی گئی تمام بنیادی ذرات، اور کوئی بھی، موجود دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم، معیاری ماڈل سے آگے کی طبیعیات، تھیوریوں جیسے سپر سمیٹری کے ساتھ، تحقیق کا ایک فعال شعبہ ہے۔ عام طور پر ریاضی کے شعبے اس شعبے کے لیے اہم ہیں، جیسے امکانات اور گروہوں کا مطالعہ۔

MAKT_PAK
 

جدید طبیعیات کا آغاز 20ویں صدی کے اوائل میں میکس پلانک کے کوانٹم تھیوری اور البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ہوا۔ یہ دونوں نظریات بعض حالات میں کلاسیکی میکانکس میں غلطیاں ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے۔ کلاسیکی میکانکس نے پیشین گوئی کی کہ روشنی کی رفتار کا انحصار مبصر کی حرکت پر ہے، جسے میکسویل کی برقی مقناطیسیت کی مساوات سے پیش گوئی کی گئی مستقل رفتار سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس تضاد کو آئن سٹائن کے نظریہ خاص اضافیت سے درست کیا گیا، جس نے تیز حرکت کرنے والے اجسام کے لیے کلاسیکی میکانکس کی جگہ لے لی اور روشنی کی مستقل رفتار کی اجازت دی۔ بلیک باڈی ریڈی ایشن نے کلاسیکی طبیعیات کے لیے ایک اور مسئلہ فراہم کیا، جسے اس وقت درست کیا گیا جب پلانک نے تجویز پیش کی کہ مادّی دوغلوں کا جوش صرف ان کی تعدد کے متناسب مجرد مراحل میں ہی ممکن ہے۔

MAKT_PAK
 

اس نے حرکت کے اپنے قوانین بھی وضع کیے جن میں یہ شامل ہے کہ 1) بھاری اشیاء تیزی سے گریں گی، رفتار وزن کے متناسب ہے اور 2) گرنے والی چیز کی رفتار کا انحصار اس کثافت والی چیز پر ہے جس سے وہ گر رہی ہے (جیسے کثافت) ہوا) اس نے یہ بھی کہا کہ جب یہ پرتشدد حرکت (کسی چیز کی حرکت جب کسی دوسری چیز کے ذریعہ اس پر طاقت کا اطلاق ہوتا ہے) کی بات آتی ہے کہ جس رفتار سے چیز حرکت کرتی ہے وہ اتنی ہی تیز یا مضبوط ہوگی جتنی اس پر لاگو طاقت کی پیمائش۔ یہ رفتار اور قوت کے اصولوں میں بھی دیکھا جاتا ہے جو آج فزکس کی کلاسوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ اصول وہی ہوں جو آج فزکس میں بیان کیے گئے ہیں لیکن، یہ زیادہ تر ملتے جلتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یہ اصول دوسرے سائنس دانوں کے لیے اس کے عقائد پر نظر ثانی اور ترمیم کرنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔

MAKT_PAK
 

ارسطو نے بہت سے حیاتیاتی کام شائع کیے جن میں ’جانوروں کے حصے (The Parts of Animals)‘ شامل ہیں، جس میں وہ حیاتیاتی سائنس اور قدرتی سائنس دونوں پر بھی بحث کرتا ہے۔ طبیعیات اور مابعدالطبیعات کی ترقی میں ارسطو کے کردار کا ذکر کرنا بھی لازمی ہے اور اس کے عقائد اور نتائج آج بھی سائنس کی کلاسوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ارسطو اپنے نتائج کے لیے جو وضاحتیں دیتا ہے وہ بھی سادہ ہے۔ عناصر کے بارے میں سوچتے وقت، ارسطو کا خیال تھا کہ ہر عنصر (زمین، آگ، پانی، ہوا) کا اپنا ایک قدرتی مقام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان عناصر کی کثافت کی وجہ سے یہ فضا میں اپنی مخصوص جگہ پر لوٹ جائیں گے۔ لہٰذا، ان کے وزن کی وجہ سے، آگ سب سے اوپر ہوگی، آگ کے نیچے ہوا، پھر پانی، پھر سب سے آخر میں زمین۔

MAKT_PAK
 

چھٹی صدی کے یورپ میں ایک بازنطینی عالم جان فلوپونس نے ارسطو کی طبیعیات کی تعلیم پر سوال اٹھایا اور اس کی خامیوں کو نوٹ کیا۔ اس نے اِمپیٹَس کا نظریہ پیش کیا۔ ارسطو کی طبیعیات کی جانچ اس وقت تک نہیں کی گئی جب تک کہ فلوپونس ظاہر نہ ہو جائے۔ ارسطو کے برعکس، جس نے اپنی طبیعیات کی بنیاد زبانی دلیل پر رکھی، فلوپونس نے مشاہدے پر انحصار کیا۔ ارسطو کی طبیعیات پرفیلوپونس نے لکھا:
لیکن یہ مکمل طور پر غلط ہے، اور ہمارا نظریہ کسی بھی قسم کی زبانی دلیل سے زیادہ مؤثر طریقے سے حقیقی مشاہدے سے ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ ایک ہی اونچائی سے دو وزن گرنے دیں جن میں سے ایک دوسرے سے کئی گنا زیادہ بھاری ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ حرکت کے لیے درکار اوقات کا تناسب وزن کے تناسب پر منحصر نہیں ہے، بلکہ یہ فرق ہے۔ وقت میں ایک بہت چھوٹا ہے.

MAKT_PAK
 

ایسگر آبوئی کے مطابق، مغریبی فلکیات کا آغاز بین النہرین، بالکل درست سائنسوں میں تمام مغریبی کاوشیں بین النہرین فلکیات کی تاریخ کے آخری دور سے نکلے تھے۔ مصری فلکیات دانوں نے ستاروں کے جھرمٹوں اور آسمانی اجسام کی حرکات کا علم ظاہر کرنے والی یادگاری عمارتیں چھوڑیں ہیں، جب کہ یونانی شاعر ہومر نے اپنی ایلیاڈ اور اوڈیسی میں مختلف آسمانی اشیاء کے بارے میں لکھا ہے۔ بعد میں یونانی فلکیات دانوں نے شمالی نصف کرہ سے نظر آنے والے بیشتر ستاروں کے جھرمٹوں کے لیے نام فراہم کیے، جو آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔

MAKT_PAK
 

فلکیات قدیم ترین قدرتی سائنسوں میں سے ایک ہے۔ 3000 قبل مسیح سے بھی پہلے کے ابتدائی تہذیبیں، جیسے کہ سمیریوں، قدیم مصریوں، وادیٔ سندھ کی تہذیب، کے پاس سورج، چاند اور ستاروں کی ایک پیشگویانہ علم اور ایک بنیادی آگاہی تھی۔ ستاروں اور سیاروں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دیوتاؤں کی نمائندگی کرتے ہیں، اکثر پوجی کی جاتی تھی۔ اگرچہ ستاروں کے مشاہدہ شدہ مقامات کی وضاحتیں اکثر غیر سائنسی تھیں اور ان میں شواہد کی کمی تھی، لیکن ان ابتدائی مشاہدات نے بعد میں فلکیات کی بنیاد ڈالی، کیونکہ ستارے کو عظیم دائروں کے موازی آسمان سے گزرتے پائے گئے تھے، جو سیاروں کے مقامات کو واضع نہ کرسکے۔

MAKT_PAK
 

طبیعیات اور کیمیاء میں پلازما یا شاکلہ (plasma) ایک باردار ہوا (ionized gas) کو کہتے ہیں اور اس کو ٹھوس، مائع اور فارغہ سے الگ، مادے کی ایک مخصوص قسم تسلیم کیا جاتا ہے۔ باردار ہونے کی بات کی جائے تو اس کا مفہوم بنیادی کیمیا کے مطابق یہی ہے کہ کسی جوہر یا سالمے سے کوئی برقیہ (electron) الگ ہو گیا ہو یا مزید سادہ الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنا مقام چھوڑ دیا ہو۔ اس طرح یہ آزاد بار (charge) شاکلہ کو برقی موصل (electrically conductive) بنادیتے ہیں اور اسی وجہ سے شاکلہ، برقناطیسی (electromagnetic fields) میدانوں میں سرعی رد عمل ظاہر کرتا ہے۔

MAKT_PAK
 

انھوں نے کہا سورج سے آنے والے شعائیں جن میں مختلف قسم کی شعائیں ہوتی ہیں ان کا زمین کے اردگر کے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے سائنس ابھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکی ہے۔
کچھ سائنس دان تحقیق کی جستجو میں کئی ہزار سال پیچھے چلے گئے ہیں اور انھوں نے برف کی تہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑھاو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سائنس دان مائک لویکورتھ جنھوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔

MAKT_PAK
 

سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
سورج کی شعائیں یا بنفشی شعاعیں زمین کی طرف منعکس ہوتی ہیں اور سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن ’چارج پارٹیکلز‘ (یا برقی ذرات) خلاء میں بکھیر دیتے ہیں۔
سورج پر ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس میں کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سورج پر ارتعاش کی انتہا یا عروج کا زمانہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ’سولر میکسیمم‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت سورج پر غیر معمولی ٹھراؤ ہے اور وہ سرگرمی نہیں ہے جو عام طور پر ہونی چاہیے تھی۔
پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے جو تیس سال سے سولر سائنس دان ہیں بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال یا سورج کی سطح پر ٹھہراؤ نہیں دیکھا۔ اگر آپ ماضی پر نظر ڈالیں تو سو سال قبل اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی۔

MAKT_PAK
 

لیکن خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ دلکش اور حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کی سطح پر شمسی طوفان تیزی سے تھم رہے ہیں۔
ردر فورڈ اپلیٹن لیباٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر لیں ’سولر پیکس‘ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں کی کمی سے یہ بات بالکل واضح ہے۔
شمالی روشنیوں کا منظر بڑا دلکش ہوتا ہے
یونیورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شمسی طوفانوں کے دورانیوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس کا مطلب ہے سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ بھی کم ہو رہا۔
سورج پر ہونے والی حرکت یا ایک مستقل طوفان کی سی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں۔

MAKT_PAK
 

ہماری کہکشاں بھی cosmic microwave background radiation یا (CMB) کے مقابل 550 کلومیٹر فی سیکنڈ کی سمتار سے جھرمٹ Hydra کی سمت میں حرکت کر رہی ہے۔ اس کو ملا کر (CMB) کے مقابل سورج کی کل سمتار تقریباً 370 km/s جھرمٹ Crater یا Leo کی جانب ہے
سورج ابھی جادہ شیر کے جس حصے سے گذر رہا ہے اس میں ہم سے قریب ترین 50 ستاروں میں، جو زمین سے 17 نوری سال (1.6E+14 کلومیٹر) کے فاصلے تک واقع ہیں، کمیت کے لحاظ سے اس کا نمبر چوتھا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیر معمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے یا آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ سورج ابھی سو رہا ہے۔
سائنسدانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے اور وہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ سورج پر آنے والے شمسی طوفانوں میں کمی کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

MAKT_PAK
 

سورج کہکشاں جادہ شیر کے مرکز کے گرد تقریباً 24000–26000 نوری سال کے فاصلے پر گردش کرتا ہے۔ یہ Cygnus جھرمٹ کی سمت میں گردش کر رہا ہے اور 22.5–25.0 کروڑ سالوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس دورانیے کو ایک کہکشائی سال کہتے ہیں۔ اس کی دوری رفتار (orbital speed) تقریباً 220±20 [[کلومیٹر فی سیکنڈ]] خیال کی جاتی تھی لیکن ایک نئے اندازے کے مطابق 251 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے

MAKT_PAK
 

نجمی جماعت بندی میں سورج کا درجہ G2V ہے۔ G2 کا مطلب ہے کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 5,780 کیلون (5,510 درجہ صد) ہے۔ سورج کا رنگ سفید ہے جو بالائی فضاء میں روشنی کے انتشار کے باعث زمین سے اکثر زردی مائل نظر آتا ہے۔ یہ روشنی کی کچھ طول موجوں کو منہا کرنے والا اثر ہے جس کے تحت روشنی میں سے چھوٹی طول موجیں، جن میں نیلی اور بنفشی روشنی شامل ہیں، نکل جاتی ہیں۔ باقی ماندہ طول موجیں انسانی آنکھ کو زردی مائل دکھائی دیتی ہیں۔ آسمان کا نیلا رنگ اسی الگ ہونے والی نیلی روشنی کے باعث ہے۔

MAKT_PAK
 

مشرق اور مغرب کی کائنات میں سپر کلسٹروں میں سے ایک کلسٹر کی ذیلی کہکشاں ملکی وے اور نظام شمسی کا ایک روشن ستارہ سورج،شمس یا خورشید ہے۔جس کو انگریزی میں(Sun) کہتے ہیں۔جبکہ ملکی وے میں ایسے بے شمار سورج موجود ہے میں یہ کہکشاں ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے۔سورج نظام شمسی کے مرکز میں واقع ستارہ ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سورج کی حجم نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.86% ہے۔
سورج کا زمین سے اوسط فاصلہ تقریباً 14,95,98,000 کلومیٹر ہے اور اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ 19 سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم یہ فاصلہ سال بھر یکساں نہیں رہتا۔ 3 جنوری کو یہ فاصلہ سب سے کم تقریباً 14,71,00,000 کلومیٹر اور 4 جولائی کو سب سے زیادہ تقریباً 15,21,00,000 کلومیٹر ہوتا ہے۔

MAKT_PAK
 

سورج، ہماری زمین کا قریب ترین ستارہ ہے۔ اِس کا زمین سے فاصلہ تقریباً 150 ملین کلومیٹر ہے۔ یہ دوسرے نظر آنے والے ستاروں سے مختلف ظاہر ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زمین سے اگلے قریب ترین ستارے سے 250,000 گُنا زیادہ زمین کے قریب ہے۔ دوسرا قریب ترین ستارہ زمین سے 30 ٹرلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ روشنی کو سورج سے زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ لگتے ہیں۔ بعید ستارے اِتنے دُور ہیں کہ اُن کی روشنی زمین تک پہنچنے میں کروڑوں سال لگاتی ہے۔

MAKT_PAK
 

تمام ستارے گرم دہکتے ہوئے گیس سے بنے ہیں۔ کچھ ستاروں کے بیرونی تہیں(layers) اِتنی خالی ہیں کہ اُن کو سرخ-گرم خلا کہنا بے جا نہ ہوگا۔ دوسرے ستارے بہت کثیف ہیں کہ بیرونی تہوں کے مادہ سے بھرا ایک چمچہ کئی ٹن وزن کا ہوگا۔ ستارے زیادہ تر ہائیڈروجن اور تھوڑے سے ہیلئیم گیس سے بنے ہیں۔ دوسرے عناصر بھی بہت تھوڑے مقدار میں موجود ہیں جیسے: آکسیجن، کاربن، نیون اور نائیٹروجن.

MAKT_PAK
 

ستارہ، اَختَر، نجم یا تارا دراصل شاکلہ (پلازما) کا ایک جسیم اور چمکیلا گولا ہوتا ہے۔ زمین کا قریب ترین ستارہ سورج ہے جو زمین پر زیادہ تر توانائی کا منبع ہے۔ دوسرے ستارے رات کو نظر آتے ہیں، جب سورج کی روشنی اُن کی روشنی کو ختم نہیں کرتی۔ وُہ ستارے جو ہم رات کے وقت اپنی برہنہ آنکھوں (Naked eyes) سے دیکھ سکتے ہیں، تمام جادۂ شیر (milky way) کہکشاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقریباً، 5000 ستارے ہم اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا نظامِ شمسی بھی اِسی کہکشاں میں شامل ہے۔ ستارہ، اپنی زندگی کے زیادہ تر حصّے میں، اِس لیے چمکتا ہے کہ اُس کے گودے میں حرمرکزی ائتلاف ہوتا ہے جس کی وجہ سے توانائی خارج ہوتی ہے، یہ توانائی ستارے کے اندرون میں چلتی ہے اور پھر باہر خلاء میں منتشر ہوجاتی ہے۔

فضائے بسیط، کامل فراغ کی قریب ترین طبعی مثال ہے۔ اِس میں رگڑ ناپید ہے، جو ستاروں، سیّاروں اور چاندوں کو آزاد تیرنے کے قابل بناتی ہے۔ ستارے، سیّارے، نجمیئے اور چاند اپنی فضاء کششِ ثقل کے ذریعے قائم رکھتے ہیں۔ اِن کی فضاؤں کی کوئی خاص حد نہیں ہوتی، بلکہ جسم سے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ فضاء کی کثافت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔
M  : فضائے بسیط، کامل فراغ کی قریب ترین طبعی مثال ہے۔ اِس میں رگڑ ناپید ہے، جو -