Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

فضائے بسیط، کامل فراغ کی قریب ترین طبعی مثال ہے۔ اِس میں رگڑ ناپید ہے، جو ستاروں، سیّاروں اور چاندوں کو آزاد تیرنے کے قابل بناتی ہے۔ ستارے، سیّارے، نجمیئے اور چاند اپنی فضاء کششِ ثقل کے ذریعے قائم رکھتے ہیں۔ اِن کی فضاؤں کی کوئی خاص حد نہیں ہوتی، بلکہ جسم سے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ فضاء کی کثافت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔
M  : فضائے بسیط، کامل فراغ کی قریب ترین طبعی مثال ہے۔ اِس میں رگڑ ناپید ہے، جو - 
MAKT_PAK
 

دوسری اہم بات یہ کہ اِس کے لیے خلاء کا لفظ استعمال کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اِس کے لیے انگریزی میں لفظ اسپیس استعمال کیا جاتا ہے اور لفظ اسپیس سے منسلک دوسرے اِصطلاحات کے اُردو متبادلات بنانے یا اپنانے میں اِصطلاح فضائے بسیط استعمال کرنے سے بہت سے مشکلات کا سامنا پڑسکتا ہے، لہٰذا، اُن مرکبات میں لفظ خلاء ہی موزوں ہے جیسے خلائی جہاز، خلائی پرواز، خلائی تحقیق، خلائی مرکز وغیرہ۔ لفظ خلاء کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اِس کی وہی معنی ہے جو انگریزی لفظ ویکیوم کی ہے، تاہم ویکیوم کے لیے ایک اَور عربی لفظ فراغ بلاجھجھک استعمال کیا جا سکتا ہے، اِس لیے لفظ خلاء کا اسپیس کے لیے استعمال کسی ابہام کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہو سکتا۔

MAKT_PAK
 

تسمیات
جیسا کہ اُوپر گذر چکا کہ عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ خلاء مکمل طور پر خالی ہے، اِسی خیال کی وجہ سے اِسے خلاء کہا جاتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِسے خلاء کہنا بھی درست نہیں، اِس کے لیے صحیح لفظ فضاء ہو سکتا ہے،تاہم فضاء دو قسم کے ہیں یعنی ایک اجرامِ فلکی کی اپنی فضاء جیسے کرۂ ہوا اور ایک اجرامِ فلکی کی کشش ثقل سے باہر یعنی اجرام کے درمیان کی جگہ،لہٰذا اِن دونوں فضاؤں کے لیے ایک ہی لفظ فضاء استعمال کرنے سے ابہام پیدا ہونے کا اندیشہ ہے،اِس لیے خلاء کے لیے فضائے بسیط ایک موزوں اور صحیح اِصطلاح ہے، علمی لحاظ سے بھی اور ادبی لحاظ سے بھی۔

MAKT_PAK
 

فضائے بسیط يا خلاء (انگریزی: Outer Space)، جسے بیرونی فضاء بھی کہاجاتا ہے، علمِ فلکیات میں اَجرامِ فلکی کی فضاؤں سے باہر کائنات کے خالی علاقہ کو کہا جاتا ہے۔ مقبولِ عام سمجھ کے برعکس خلاء مکمل طور پر خالی نہیں ہے (جیسے کامل فراغ) بلکہ اِس میں تھوڑے مقدار کا ریزہ موجود ہے، زیادہ تر ہائیڈروجن پلازما اور ساتھ ہی برقناطیسی اشعاع ، قیاساً اِس میں سیاہ مادہ اور سیاہ توانائی بھی موجود ہے۔

MAKT_PAK
 

خلاء (space) دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خالی جگہ۔ اُردو میں یہ لفظ اِسی مفہوم کے ساتھ ساتھ ایک اَور مقصد یعنی اجرامِ فلکی کی فضاؤں سے باہر (بین اجرامی) علاقہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
لفظ خلاء کے استعمالات:
خلاء، اجرامِ فلکی کی اپنی فضاؤں سے باہر کی فضاء، یعنی بیرونی فضاء
خلانورد، ایک شخص جو (تحقیقاً یا تفریحاً) خلاء کا سفر کرتا ہے
خلائی طرزیات، خلائی تحقیق اور سفر کے لیے استعمال ہونے والے ٹیکنالوجی
خلائیہ، ایک ایسا جہاز جو خلائی سفر کے لیے بنایا جاتا ہے
خلائی مرکز، ایک ایسا مصنوعی جہاز نُما مستقر (station) جو خلاء میں قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

Beautiful People image
M  : آپکا بھی بڑا دل کرتا ہوگا ایسا سوٹ پہن کر آپ بھی خلاء کی سیر کرنے جائیں؟ 🙂 - 
کوئی کسی کو زندگی بھر دوست نہیں بناتا
پیڑدرخت وغیرہ بھی گراتےہےسوکھےہوئےپتے
M  : کوئی کسی کو زندگی بھر دوست نہیں بناتا پیڑدرخت وغیرہ بھی گراتےہےسوکھےہوئےپتے - 
MAKT_PAK
 

اللّٰہ میاں سے دعائیں کر کر کے بھی آپکو آپکا پیار ابھی تک نہیں ملا تو پھر آپ خود کوشش کریں،اپنے محبوب کو اپنے دل کا حال بتائیں کہ آپکو اس سے شدید قسم کی الفت ہے اور آپ اسکے بنا بالکل بھی جینے کا تصور نہیں رکھتے اور نہ جی سکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے شاید پھر آپکی محنت رنگ لائے اور آپکو آپکی محبت مل جائے۔

MAKT_PAK
 

خط لکھتے لکھتے جسکے ہاتھ کانپتے ہو
وہ سمجھو یار کا ستایا ہوا ہے

MAKT_PAK
 

محبت ہو تو ایسی
میرے ایک دوست کا ایکسیڈنٹ ہوا
اسکی بیوی کو کال کر کے بتایا گیا کہ آپکے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور شدید چوٹیں آئیں ہیں اور انکا بچنا بہت مشکل ہے،بس اتنا سننا تھا میرے دوست کی بیوی کو ایک دم سے ہارٹ اٹیک ہوگیا اور اسکا انتقال ہوگیا۔
اور اتفاق سے دوست بچ گیا،مگر اس نے بھی ابھی تک شادی نہیں کی۔
اس بات کو تقریباً پندرہ برس بیت گئے ہیں۔

MAKT_PAK
 
MAKT_PAK
 
MAKT_PAK
 
MAKT_PAK
 
MAKT_PAK
 

بے خودی لے اڑی حواس کہیں
ہے کوئی دل کے آس پاس کہیں
حسن جلوہ دکھا گیا اپنا
عشق بیٹھا رہا اداس کہیں
ہم بعید و قریب ڈھونڈ چکے
وہ کہیں دور ہے نہ پاس کہیں
صبر ہی آئے اب قرار تو کیا
ٹوٹ ہی جائے دل کی آس کہیں
سیفؔ خون جگر پڑا پینا
ایسے بجھتی ہے دل کی پیاس کہیں
سیف الدین سیف

MAKT_PAK
 

پھیل رہے ہیں وقت کے سائے
دیکھیں رات کہاں تک جائے
دیدہ و دل کی بات نہ پوچھو
ایک لگائے ایک بجھائے
آج یہ ہے موسم کا تقاضا
زلف تری کھل کر لہرائے
ان آنکھوں سے موتی برسے
ان ہونٹوں نے پھول کھلائے
دیکھ بھال کر زہر پیا ہے
سوچ سمجھ کر دھوکے کھائے
آج وہ تنہا رات کٹی ہے
آنسو تک آنکھوں میں نہ آئے
سیفؔ زمانہ سمجھاتا ہے
کون اپنے ہیں کون پرائے
سیف الدین سیف

MAKT_PAK
 

دلوں کو توڑنے والو تمہیں کسی سے کیا
ملو تو آنکھ چرا لو تمہیں کسی سے کیا
ہماری لغزش پا کا خیال کیوں ہے تمہیں
تم اپنی چال سنبھالو تمہیں کسی سے کیا
چمک کے اور بڑھاؤ مری سیہ بختی
کسی کے گھر کے اجالو تمہیں کسی سے کیا
نظر بچا کے گزر جاؤ میری تربت سے
کسی پہ خاک نہ ڈالو تمہیں کسی سے کیا
مجھے خود اپنی نظر میں بنا کے بیگانہ
جہاں کو اپنا بنا لو تمہیں کسی سے کیا
قریب نزع بھی کیوں چین لے سکے کوئی
نقاب رخ سے اٹھا لو تمہیں کسی سے کیا
سیف الدین سیف

MAKT_PAK
 

قریب موت کھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
قضا سے آنکھ لڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
نہیں امید کہ ہم آج کی سحر دیکھیں
یہ رات ہم پہ کڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی نہ جاؤ کہ تاروں کا دل دھڑکتا ہے
تمام رات پڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
پھر اس کے بعد کبھی ہم نہ تم کو روکیں گے
لبوں پہ سانس اڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
دم فراق میں جی بھر کے تم کو دیکھ تو لوں
یہ فیصلے کی گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
سیف الدین سیف

MAKT_PAK
 

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا
حسن مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے گزاری ہے تمہیں کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
حسن نے اپنی جفاؤں پہ بہائے آنسو
عشق کو اپنی شکایات پہ رونا آیا
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
اول اول تو بس ایک آہ نکل جاتی تھی
آخر آخر تو ملاقات پہ رونا آیا
سیفؔ یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا

MAKT_PAK
 

مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے
جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے
سیف الدین سیف