دوسرے دن نماز فجر کے بعد کچھ نیند کا غلبہ ہوا،لیکن پھر فوراً متنبہ ہو گئے اور دعا کی کہ خدایا میں سونے والی آنکھ اورنہ بھرنے والے پیٹ سے پناہ مانگتا ہوں، یہ حال دیکھ کر میں نے کہا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس قدر کافی ہے۔ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ افطار کے لیے کچھ میسر نہ آتا تو کھجور کی گھٹلیاں چن کر بیچتے اور اس کی قیمت سے قوت لا یموت حاصل کرتے، اگر خشک خرمامل جاتا تو اس کو افطار کے لیے رکھ لیتے اگرزیادہ مقدار میں مل جاتا تو گھٹلیاں بیچ کر اس کی قیمت خیرات کردیتے۔
عبادت وریاضت آپ نے راہ سلوک میں بڑے بڑے مجاہدات کیے،ساری ساری رات پلک سے پلک نہ ملتی تھی،معمول تھا کہ ایک شب قیام میں گزار تے تھے،دوسری رکوع میں اور تیسری سجدہ میں اکثر رات کے ساتھ دن بھی عبادت ہی میں گزرجاتا تھا،ربیع بن خثیم کا بیان ہے کہ ایک دن میں اویس سے ملنے گیا،دیکھا کہ وہ فجر کی نماز میں مشغول ہیں،میں اس خیال سے کہ ان کی تسبیح و تہلیل میں حارج نہ ہوں اس سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا،وہ ظہر کی نماز تک برابر مشغول رہے،پھر ظہر سے عصر تک اورعصر سے مغرب تک یہی حال رہا ،میں نے خیال کیا کہ مغرب کے بعد شاید افطار کے لیے جائیں،لیکن وہ برابر عشاء تک مشغول رہے،پھر عشاءسے صبح تک یہی کیفیت رہی۔
حلقہ ذکر کوفہ میں ذکر و شغل کا ایک حلقہ تھا جس میں بہت سے سالکین جمع ہوتے تھے ،اویس بھی اس حلقہ میں شرکت کرتے تھے،اسیر بن جابر کا بیان ہے کہ ہم چند لوگ کوفہ میں ذکر و شغل کے ایک حلقہ میں جمع ہوتے تھے،اویس بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے ، اس حلقہ میں دلوں پر سب سے زیادہ اویس کے ذکر کا اثر پڑتا تھا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذکر وہ شغل نماز اور تلاوت قرآن تھی۔
اوراگر خشک گھاس اور کمزور شاخ پر برستا ہے تو اسے توڑ پھوڑ ڈالتا ہے،یہ مثال دے کر یہ آیت پڑھی: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا اور ہم وہ قرآن نازل کر رہے ہیں جو مؤمنوں کے لیے شفاء اور رحمت کا سامان ہے،البتہ ظالموں کے حصہ میں اُس سے نقصان کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔
اسیر بن جابر بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک ساتھی مجھے اویس کے پاس لے گئے وہ دوررکعت نماز تمام کرنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا،آپ لوگوں کا بھی میرے ساتھ عجیب معاملہ ہے، آپ لوگ میرے پیچھے پیچھے کیوں چلتے ہیں، میں ایک ضعیف انسان ہوں،میری بہت سی ضروریات ہیں،جنہیں میں آپ کی وجہ سے پوری نہیں کرسکتا،آپ لوگ ایسا نہ کیجئے،خدا آپ پررحم کرے، اگر کسی کو مجھ سے کوئی ضرورت ہو تو وہ عشا کے وقت مل لیا کرے،اس مجلس میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں،سمجھ دارمومن،بے سمجھ مومن،اور منافق،ان تینوں کی مثال درخت اور بارش کی سی ہے،اگر سر سبز وشاداب اور پھل دار درخت پر پانی برستا ہے تو اس کی تراوٹ وشادابی اورحسن وخوبصورتی میں اورزیادہ اضافہ ہوتا ہے اور اگر شاداب مگر بے پھل والے درخت پر برستا ہے تو اس کے پتوں میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور وہ پھل دینے لگتا ہے۔
شہرت سے اجتناب آپ فنا کے اس درجہ پر تھے،جہاں شہرت،نموداور اہل دنیا سے اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں اس لیے شہرت اورناموری سے بہت بھاگتے تھے حضرت عمرؓ نے چاہا کہ والی کوفہ کے نام خط لکھ کر آپ کا تعارف کرائے آپ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کر دیں مگر آپ نے منظور نہ کیا اور جواب دیاکہ میں زمرہ ٔ عوام میں رہنا پسند کرتا ہوں(مسلم کتاب الفضائل فضائل اویس قرنی) لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بہت گھبراتے؛ لیکن آپ کی عزلت پسندی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی،آپ کی شمیم روحانیت نے خلق اللہ کو خود اپنی طرف متوجہ کر لیا اور لوگوں کا رجحان آپ کی طرف بڑھنے لگا۔
اس کے باوجود طبقات ابن سعد، اصابہ، اسد الغابہ ،حلیۃ الاولیاء، ابن عساکر،تہذیب ،میزان الاعتدال، لسان المیزان وغیرہ قریب قریب تمام متد اول کتابوں میں ان کے حالات موجود ہیں،پھر جن علما نے ان کے وجود کے انکار کی روایتیں نقل کی ہیں انھیں خود ان پر اعتماد نہیں ہے ا ور وہ اویس قرنی کی شخصیت کو مانتے ہیں؛چنانچہ حافظ ابن حجر امام مالک کے انکار کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ان کی (اویس قرنی) شہرت اوران کے حالات اتنے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ان کے وجود میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ان بیانات کے بعد اویس قرنی کی شخصیت میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ،تذکروں میں ان کے حالات بہت ملتے ہیں،لیکن ان میں ہرقسم کی رطب ویابس روایتیں ہیں،اس لیے ہم نے تذکرۃ الاولیاء کے ایک دوبیانوں کے علاوہ انھیں ہاتھ نہیں لگایا ہے۔
پھر جب ہم کتب احادیث وطبقات پرنظر ڈالتے ہیں تو صحیح مسلم تک میں ان کے مستقل فضائل ملتے ہیں؛بلکہ حدیث کی کتابوں میں ان کے حالات طبقات ورجال سے زیادہ ہیں،حدیث کی حسب ذیل کتابوں میں ان کے حالات ہیں یا کسی نہ کسی حیثیت سے ان کا ذکر آیا ہے،مسند احمد بن حنبل ، صحیح مسلم،دلائل بیہقی،حلیۃ الاولیاء،ابو نعیم، مسند ابویعلی،مسند ابو عوانہ،مستدرک ،حاکم وغیرہ،ان میں سے اکثروں کے حوالے حافظ ابن حجر نے اصابہ میں دیے ہیں،ممکن ہے ان کے علاوہ بعض اورکتابوں میں بھی ان کے حالات ہوں، طبقات ورجال کی کتابوں میں ان کا ذکر کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان میں عموما انہی لوگوں کے تفصیلی حالت ہیں جن کا تعلق علمی یا عملی دنیا سے رہا ہے۔
بلکہ اپنے اخفا میں ان کو اتنا اہتمام تھا کہ اہل دنیا کی نگاہوں سے چھپتے پھرتے تھے اور اس کے انھوں نے محدث اور مفتی بنناتک گوارانہ کیا کہ اس صورت میں وہ مرکز توجہ ہوجاتے،انھوں نے اپنی زندگی ایسی بنائی تھی کہ بعض خواص کے علاوہ خود ان کے اہل وطن تک ان سے واقف نہ تھے اورجو لوگ جانتے بھی تھے،وہ محض ایک وارفتہ مزاج سودائی کی حیثیت سے،ایسی حالت میں اس عہد کے بعض علما کا ان سے واقف نہ ہونا کوئی تعجب انگیز نہیں کہ علما کی واقفیت کے لیے علمی اورعملی امتیاز ضروری تھا۔ لیکن بہرحال اُن کی شخصیت چھپنے والی نہ تھی،اس لیے بہت سے خواص پر ان کی سبقت آشکار ہو گئی جس کے حالات اوپر گذر چکے ہیں۔
لیکن ان میں سے ایک چیز بھی ان کے نہ ہونے کا ثبوت نہیں۔ اصولاً ہر زمانہ میں انہی اشخاص کے حالات کا لوگوں کو علم ہوتا ہے، جو کسی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں، عزلت نشین اورخاموش اشخاص سے واقفیت نہیں ہوتی،خود صحابہ کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ہر صحابی سے اس عہد کے لوگ واقف تھے یا ان سب کے حالات لکھے گئے ،عموماً انہی صحابہ کے حالات معلوم ہیں، جنھوں نے کوئی علمی یا عملی کام کیے یا سلسلہ روایت میں کہیں ان کا نام آگیا ہے، بعضوں کا صرف نام ہی معلوم ہے اورکسی حالات کا علم نہیں، ایسی حالت میں گمنام تابعین کا کیا ذکر۔ اس اصول کو پیش نظر رکھنے کے بعد اویس قرنی کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جیسا کہ ان کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف عملی دنیا سے الگ تھلگ اورگوشہ نشین تھے۔
ایک یہ کہ جن روایات سے اویس قرنی کا وجود مشتبہ معلوم ہوتا ہے ان کی روایتی حیثیت کیا ہے؟ پھر ان کی صحت کی صورت میں ان سے اویس کے عدم وجود کا نتیجہ نکالنا کہاں تک صحیح ہے اوران کے مقابلہ میں دوسرے علما اورکتب احادیث وطبقات کی شہادت کیا ہے۔ روایتی حیثیت سے اس قسم کی تمام روایتیں ناقابل اعتماد ہیں،حافظ ابن حجر اورسمعانی نے اگرچہ یہ روایتیں نقل کی ہیں لیکن ان کی کوئی سندنہیں دی ہے، اس لیے محدثا نہ اصول سے وہ ساقط الاعتبار اورناقابل استناد ہیں۔ لیکن اگر انھیں صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی ان سے اویس قرنی کے نہ ہونے کا نتیجہ نکالناصحیح نہیں ہے ،اس لیے کہ جن جن لوگوں نے ان کے وجود میں شک ظاہر کیا ہے،یا اس سے انکار کیا ہے وہ صرف اس بنا پر کہ انھوں نے اس عہد میں ان کا ذکر نہیں سنا ،یا ان کے حالات ان کے علم میں نہیں آئے۔
اویس کی شخصیت میں شک کے اسباب ۔ یہ عجیب حیرت انگیز امر ہے کہ خیر التابعینکے ان فضائل ومناقب اوراخلاقی وروحانی کمالات کے باوجود بعض ایسی روایتیں بھی ملتی ہیں جن سے ان کا وجود مشتبہ ہوجاتا ہے کہ اویس نام ان اوصاف کے کوئی تابعی تھے بھی یا نہیں، مثلاً ابن عدی کا یہ بیان کہ امام مالکؒ ان کے وجود کے منکر تھے،یا سمعانی کی یہ روایت کہ ابن حبان کاکہنا ہے کہ ہمارے بعض اصحاب ان کے وجود کے منکر تھے یا سمعانی کی یہ روایت کہ ابن حبان کا بیان ہے کہ ہمارے بخاری کے نزدیک ان کے اسناد محل نظر ہیں۔ لیکن دوسرے علما محدثین اورکتب احادیث وطبقات کے ان کثیر بیانات کے مقابلہ میں جن کے بعد خیر التابعین کی شخصیت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی،ان چند کمزور روایتوں کی کوئی حیثیت نہیں، اس سلسلہ میں چند امور قابل غور ہیں۔
ایک دن ایک لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کو بولی آپکو ہر بار میری سالگرہ کا دن یاد نہیں رہتا؟ بوائے فرینڈ آہستہ سی آواز میں اپنی گرل فرینڈ کو بولا،یاد تو میں تمہیں بھی نہیں رکھنا چاہتا ہوں وہ تو تم ہی مجھے بار بار کال کر کے ملنے کے لیے بلا لیتی ہو۔
جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے فتنے بڑھتے ہی جارہے ہیں کہیں پہ عورت کا فتنہ ہے کہیں پہ اولاد کا فتنہ ہے۔ جب یہ دو فتنے ہونگے آپکی زندگی میں تو آپکو خواہ مخواہ مال کی بھی اشد ضرورت پڑے گی اور پھر آپ رستہ نہیں دیکھو گے کہ کونسا رستہ ٹھیک ہے کون سا غلط بس مال کمانے پہ زور دو گے اور مال بھی فتنہ عظیم ہے۔ اللّٰہ ہم سب مسلمانوں کو ان فتنوں سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین
ہاتھ پہ بھروسے کا مطلب ہے اپنے آپ پہ بھروسہ کرنا اور جسکو اپنے آپ پہ بھروسہ نہیں وہ کامیاب نہیں اور آجکل ویسے بھی دوسروں پہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے عموماً دھوکا ہی ملتا ہے۔