اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کرنے دو یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ سوچئے ہم اسی نبی کے نام لویا ہیں جو اپنی ذات پر زیادتیوں سے درگزر کرلیتا ہے مگر دین کی کسی بات سے صرف نظر نہیں کرتا۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ اسلام کے خلاف جو شخص جو چاہے کہتا رہے، ہمیں غیرت نہیں آتی اور ہماری ذات کے معاملے میں ذرا سی زیادتی ہو تو ہم سلگ اٹھتے ہیں۔
طائف میں جب آپ گئے تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا اور دل آزار باتیں کیں لیکن آپ نے ان کے لئے دعائے ضرر نہیں فرمائی کیونکہ آپ کو علم تھا کہ اہل طاف اسلام قبول کرلیں گے اور پھر نو ہجری وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔
رحمتہ اللہ عالمین کی تفسیر میں میں نے کوشش کی ہے کہ ہر اعتبار سے آپ کا رحمت ہونا واضح ہوجائے، اللہ تعالیٰ میری اس کاوش کو قبول فرمائے، میرے گناہوں پر پردہ رکھے، مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے
ایسے بےعدیل، رحمی و کریم اور بےمثیل مہربان آقا کو ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ خندق میں مشرکوں سے جنگ کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو ان کے خلاف دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ جس صابر و شاکر شخص نے طائف کے ظلم سہہ کر کسی ظالم کے خلاف دعا نہیں کی، ابوسفیان، وحشی اور ہند کو کچھ نہ کہا، بڑی سے بڑی زیادتی کے بعد جس کا پیمانہ صبر لبریز نہیں ہوا، وہ نماز میں خلل ڈالنے، تبلیغ دین کو سبوتاژ کرنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے کفار کے خلاف دعائے ضرر کرتا ہے۔ اس سے یہی بتلانا مقصود تھا کہ اپنی جان، اپنی عزت، آبرو اور اپنے عزیزوں کے خن کی بہ نسبت دین کی تبلیغ نماز اور مسلمانوں کا خوف مجھے پیارا ہے۔ میں اپنی جان پر زیادتی برداشت کرسکتا ہوں، اپنے عزیزوں کا خوف معاف کرسکتا ہوں لیکن تم مجھے تبلیغ نہ کرنے دو
ابوسفیان کی بیوی ہند نے ان کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے کچا چبایا۔ آپ نے یہ سارے ظلم و ستم دیکھے اور کچھ نہ کہا بلکہ فتح مکہ کے بعد جب یہ سارے اشقیاء مغلوب ہو کر پیش خدمت ہوئے جب عربوں کے روایتی انتقا مکی آگ کے خوف سیم ارے ڈر کے یہ سارے سہمے ہوئے تھے آپ نے قادر اور غالب ہونے کے باوجود بدل نہیں لیا۔ بار بار حملہ آور ہونے والے ابوسفیان کو معاف کردیا۔ حضرت حمزہ کے قاتل وحشی کو بخش دیا۔ حمزہ (رضی اللہ عنہ) کا کلیجہ چبانے والی ہند سے درگزر کرلیا۔ وحشی نے قبول اسلام کے لئے شرئاط پیش کیں اس کی ایک ایک شرط پوری کر کے اسے آغوش رحمت میں لے لیا۔ قاتل حمزہ کا ایک ایک نخرہ برداشت کر کے اسے مشرف بہ اسلام کیا۔
ان کا ظلم دیکھ کر جبریل (علیہ السلام) سے بھی یارائے ضبط نہ رہا، پہاڑوں کے فرشتہ نے حاض رہو کر کہا آپ حکم دیں تو مکہ کے لوگوں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں لیکن آپ نے کہا تو یہی کہا، بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی پیٹھوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا۔ جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3231)
جبل احد کی گھاٹیوں پر ابوسفیان کی قیادت میں مشرکین حملہ آور ہوئے، کسی شقی نے پتھر مارا اور آپ کا چہرہ خون آلود ہوگیا، دانت کا ایک کنارہ شہید ہوگیا پھر بھی آپ نے ان کے خلاف دعا نہیں کی۔ اسی غزوہ میں آپ کے پیارے اور محبوب چچا سیدنا حمزہ کو وحشی نے قتل کردیا، ان کے جسم کو گھائل کیا گیا، جسم کے نازک حصے کاٹ ڈالے گئے۔
قصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آپ کی رحمت سے دور رکھا۔ جب نصف النہار کے وقت آفاتب روئے زمین پر نور افگن ہو اور کوئی شخص آنکھیں بند کر کے کھڑا ہوجائے تو قصور آفتاب کے فیض کا نہیں، قصور اس شخص کا ہے جس نے آفتاب کے سامنے ہوتے ہوئے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
کفار کے لئے عذاب کی دعا کرنے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ کفار اور مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں آپ نے ان کے خلاف دعا نہیں کی۔ طائف کی وادیوں میں آپ پیغام توحید سنانے گئے جو اب میں انہوں نے پتھر مار مار کر آپ کو لہولہان کردیا دل آزار باتیں کیں، آواز کسے، آپ نے اف نہ کی۔
اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمتہ للعالمین ہیں بایں معنی کہ آپ نے تمام جہان والوں کو توحید و رسالت کی دعوت دی اور ابدی رحمت کے حصول کا دروازہ دکھایا جو لوگ جان کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے، ان میں سے ایک ایک کے گھر جا کر پیغام حق سنایا جو راستہ میں کانٹے بچھاتے تھے اور غلاظت بکھیرتے تھے، ان کے دروازوں پر دستک دے کر جنت اور دائمی سلامتی کی دعوت دی۔ اس کے باوجود جن لوگوں نے آپ کی دعوت کو مسترد کر کے جنت اور رحمت سے منہ موڑ لیا تو اس میں آپ کی رحمت کے عموم اور شمول کا قصور جن لوگوں نے آپ کی دعوت کو مسترد کر کے جنت اور رحمت سے منہ موڑ لیا تو اس میں آپ کی رحمت کے عموم اور شمول کا قصور نہیں۔
بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کرلے، تیرا گناہ معاف کردیا جائے گا اور تیری توبہ قبول کرلی جائے گی۔ اس لعین نے اللہ تعالیٰ سے کہا جب میں نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو اب ان کی قبر کو کب سجدہ کروں گا۔ (روح البیان ج ۃ ص 105) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اسے کل بھی شامل تھی، آج بھی شامل ہے۔ اس لعین نے خود اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پیکراں رحمت سے دور رکھا ہوا ہے۔ دریا کے ساحل پر کھڑا ہو کر کوئی شخص کہے دریا میری پیاس نہیں بجھاتا تو یہ دریا کی سیرابی میں کمی نہیں ہے، خود اس شخص کے ظرف میں کمی ہے جو دریا کے قریب آ کر پانی نہیں پی رہا۔
علامہ عبدالوہاب شعرانی (رح) نے بھی اس سوال کا کوئی جواب ذکر نہیں کیا۔ میں نے اس حکایت کو پڑھ کر غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ جواب منکشف فرمایا کہ ضروتر کے وقت کسی کو کوئی چیز دینا بھی رحمت ہے اور اس چیز کے اسباب فراہم کردینا بھی رحمت ہے۔ مثلاً ھوکے کو آپ کھانا کھلا دیں یہ اس کے حق میں رحمت ہے اور اگر اسی کھانے کے پییس دے دیں تو یہ بھی اس کے لئے رحمت ہے۔ اسی طرح جنت کا معاملہ ہے بنفسہ جنت عطا کردینا بھی رحمت ہے اور جنت کے اسباب مہیا کردینا بھی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت، مغفرت اور رضا مندی کے حصول کا سبب اپنے احکام کی اطاعت مقرر کیا ہے۔ یہ احکام فرشتوں کے ساتھ شیطان کو بھی دیئےگئےتھے اور فرشتوں کے ساتھ اسےبھی حضرت آدم کی تعظیم کا حکم دیا گیا لیکن اس نےاللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے خود منہ موڑلیا۔
امام شعرانی نے ابن عربی (رح) کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ سہل بن عبداللہ تستری کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا بتائو میری بخشش ہوگی یا نہیں ڈ سہل نے کہا نہیں۔ شیطان نے کہا اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ” ورحمتی وسعت کل شی “ (الاعراف 156) ” میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے “ اور ہر شے کے عموم میں میں بھی داخل ہوں تو میری مغفرت بھی ہونی چاہیے۔ سہل نے کہا یہ مومنین کے ساتھ خاص ہے تم اس کے عموم سے خارج ہے۔ شیطان نے کہا پہلے تو میں تم کو عالم سمجھتا تھا آج تمہارا جہل مجھ پر آشکار ہوگیا تم اللہ تعالیٰ کی صفت (یعنی رحمت کے شمول) میں تقید کر رہے ہو حالانکہ تقید اور تحدید مخلوق کی صفات میں ہوتی ہے اس کی صفات غیر مقید اور لامحدود ہوتی ہیں۔ شیطان کا یہ جواب سن کر سہل بالکل لاجواب اور مبہوت ہوگئے۔ (الکبریت الاحمر علی ہامش الیواقت ج ١ ص 2, 3
اعتراضات مذکورہ کے جوابات
ان احادیث میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے خلاف دعائے ضرر کی، ان پر اعتراض ہے کہ آپ تو رحمتہ للعلمین ہیں۔ کفار کے لئے عذاب کی دعا کرنا آپ کی شان اور مصنب کے خلاف ہے، اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم ہے اس کے باوجود وہ کفار کو عذاب دے گا تو جب اللہ تعالیٰ کا رحمن اور رحیم ہونا، اس کے عذاب دینے کے خلاف نہیں ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رحمتہ للعالمین ہونا، عذاب کی دعا کے خلاف کیسے ہوگا۔
باقی رہا یہ شبہ کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن اور رحیم ہو کر کفار کو عذاب کیسے دے گا۔ اس کا جواب رحمت کے معنی سمجھنے پر موقوف ہے۔
(٣) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ الاحزاب کے دن فرمایا اللہ تعالیٰ کفار کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے، ہم ان کی وجہ سے غروب آفتاب تک عصر کی نماز نہیں پھڑ سکے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث، 2939، صحیح مسلم رقم الحدیڑ :627، سنن ابو دائود رقم الحدیث :409، سنن الترمذی رقم الحدیث :2984 سنن النسائی رقم الحدیث :472-473)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ (قبیلہ) رمل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان نے اپنے دشمنوں کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد طلب کی (ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان معاہد ہتھا) آپ نے ستر انصاریوں کو ان کی مدد کے لئے بھیجا۔ ہم ان کو اپنے زمانہ میں قراء کہتے تھے، وہ دن میں لکڑیاں چنتے تھے اور رات کو نماز پڑھتے تھے جب وہ قراء بیر معونہ پہنچے تو ان کو بلانے والوں نے ان کو قتل کردیا اور عہد شکنی کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی تو آپ ایک مہینہ تک صبح کی نماز میں عرب کے ان قبیلوں کے خلاف دعا کرتے رہے۔ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان کے خلاف۔ (صحیح البخاری رقم الدیث :409, 4088)
(امام بخاری نے ایک اور جگہ ذکر کیا ہے کہ وہ ساتواں شخص عمارہ بن الولید بن مغیرہ تھا۔ عمدۃ القاری جز ٣ ص 174) حضرت ابن مسعود نے کہا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جن جن کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نام لئے تھے وہ ساتوں بدر کے کنوئیں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :240، صحیح مسلم رقم الحدیث :1794، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :8669)
وہ کافرہ نس رہے تھے اور بعض بعض کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے تھے کہ تم نے یہ کیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (تقاضائے بشری سے) سجدہ سے سر نہیں اٹھا سکے حتیٰ کہ حضرت سیدتنا فاطمہ (رض) آئیں اور انہوں نے اس اوجھڑی کو اٹھا کر آپ کی پشت سے پھینکا۔ آپ نے سجدہ سے سر اٹھا کر تین بار فرمایا اے اللہ ! قریش کو پکڑ لے، ان کو یہ دعا بہت سخت معلوم ہوئی کیونکہ ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے پھر آپ نے نام لے لے کر فرمایا اے اللہ ! باوجہل کو پکڑ لے، عتبہ بن ربیعہ کو پکڑ لے، شیبہ بن ربیعہ کو پکڑ لے اور ولید بن عتبہ کو پکڑ لے اور امیہ بن خلف کو پکڑے لے اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے اور ساتویں کا نام بھی لیا، وہ راوی کو یاد نہیں رہا۔
(٢) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھ وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت ان میں سے کسی نے کہا بنو فلاں کے ہاں اونٹنی ذبح ہوئی ہے، تم میں سے کون جا کر اس کی اوجھڑی لے کر آئے اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ میں جائیں تو اس کو ان کی پشت پر رکھ دے تو ان میں جو سب سے بدبخت شخص تھا (عقبہ بن ابی معیط) وہ اٹھا اور اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا حتیٰ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں گئے تو اس نے وہ اوجھڑی آپ کے کندھوں کے درمیان آپ کی پشت پر رکھ دی۔ (حضرت ابن معسود کہتے ہیں) میں یہ منظر دیکھ رہا تھا اور میں اس میں کئیو تبدیلی نہیں کرسکتا تھا کاش کہ میرے پاس مددگار ہوتے۔
علامہ بدر الدین عینی حفنی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکتوب پھاڑا تھا، اس کا نام پرویز بن ہرمز تھا جب اس نے آپ کے مکتوب کے ٹکڑے ٹکڑے کئے تو آپ نے فرمایا : اس کا ملک ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے اور آپ نے فرمایا : جب کسریٰ مرجائے گا تو پھر کسریٰ (نام کا کوئی) بادشاہ نہیں ہوگا۔ علامہ واقدی نے کہا کسریٰ کے اوپر اس کا بیٹا شرویہ مسلط ہوگیا اور اس نے سات ہجری میں کسریٰ کو قتل کردیا اور اس کے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر یدئے گئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اس کے خلاف دعا کی تھی، وہ پوری ہوگئی۔ (عمدۃ القاری جز ٢ ص 28 مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، 1348 ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحمتہ للعالمین ہونے پر اعتراضات
بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض کفار اور مشرکین کے لئے ہلاکت اور ضرر کی دعا فرمائی۔ اس وجہ سے آپ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں تو آپ نے ان کافروں کے لئے ہلاکت اور ضرر کی کیوں دعائی فرمائی ؟ وہ احادیث حسب ذیل ہیں :
(١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو اپنا مکتوب دے کر عظیم البحرین کی طرف بھیجا، عظیم البحرین نے وہ مکتوب کسریٰ کو دے دیا جب کسریٰ نے آپ کے مکتوب کو پڑھا تو اس کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ میرا گمان ہے کہ ابن مسیب نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف دعا کی کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4939-64)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! گویا یہ اونٹ جانتا تھا کہ آپ نبی ہیں ڈ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ،
مابین لابتیھا احد الا یعلم انی نبی الاکفرۃ الجن والانس۔ مدینہ کے دوسروں کے درمیان ہر چیز کو علم ہے کہ میں نبی ہوں، سوا کافر جن اور کافرانس کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :12003 مجمع الزوائد رقم الحدیث :14154، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 30)
حضرت یعلی (رض) کی حیدث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
مامن شیء الا یعلم انی رسول اللہ الا کفرۃ اوفسقۃ الجن والانس۔ ہر شے کو علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، سوا کافر یا فاسق جن اور انس کے۔ (المعجم الکبیرج ج 22 ص 262، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 534 مجمع الزوائد رقم الحدیث :14159)
ان احادیث میں درختوں اور جمادات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ذکر ہے۔
آپ کی رسالت کا ہر چیز کو علم ہے
ہم نے حیوانات پر رحمت کے سلسلہ میں جو احادیث ذکر کی ہیں اس میں اونٹ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کرنے کا ذکر ہے، اس حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا :
لیس شی بین السماء والارض الایعلم انی رسول اللہ الا عاصی الجن والانس کفار جن اور انس کے سوا آسمان اور زمین کے درمیان ہر چیز یہ جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ (مسند احمد ج ٣ ص 110، قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :14385، عالم الکتب، مسند عبدبن حمید رقم الحدیث :1123، سنن الدارمی رقم الحدیث :18 دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث :279 مصنف ابنی ابی شیبہ ج ١١ ص 473 مجمع الزوائد ج 9 ص
سنن الداری رقم الحدیث :39 حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ١ ص 182)
نیز حافظ ابونعیم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابی بن کعب (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس درخت کے ستون سے فرمایا : تو پرسکون ہوجا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا یہ میری محبت میں رو رہا ہے پھر آپ نے اس سے فرمایا تو پرسکون ہوجا اگر تو چاہے تو میں تجھ کو جنت میں اگا دوں، تیرا پھل نیک لوگ کھائیں گے اور اگر تو چاہے تو میں تجھے دنیا میں پہلے کی طرح تروتازہ درخت اگا دوں تو اس درخت نے آخرت کو دنیا پر اختیار کرلیا۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث :306 سنن الدارمی رقم الحدیث :36 الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص 307 مجمع الزوائد ج ہ ص 180)
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain