Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

آپ نے فرمایا اگر میں اس کو نہ چمٹاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔
امام بغوی نے اس حدیث کو حسن سے روایت کر کے کہا حسن جب اس حدیث کو بیان کرتے تو روتے اور کہتے اے اللہ کے بندو ! درخت کا تنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شوق میں روتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا مقام ہے تو تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کا شوق رکھنے کے زیادہ حق دار ہو۔ (البدایہ والنہایہ ج ر ص 518-519 مطبوعہ دارالفکر بیروت، طبع جدید، 1418 ھ)
امام ابونعیم اصفہانی متوفی 430 ھ نے متعدد اسانید کے ساتھ حضرت جابر (رض) سے ایک حدیث کو روایت کیا ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ اگر میں اس کو اپنے ساتھ نہ لپٹاتا تو یہ قیامت تک روتا اور چلاتا رہتا۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث :302-305

MAKT_PAK
 

امام ابویعلی اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھ گئے تو وہ مجور کا تنابیل کی طرح آواز نکال کر چلا رہا تھا اور رسول اللہ اللہ تعالیٰ (کے فراق) کے غم کی وجہ سے اس کی آواز میں لرزش تھی پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر سے اترے اور اس کو لپٹا لیا پھر وہ پرسکون ہوگیا پھر آپنے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے اگر میں اس کو نہ لپٹاتا تو وہ قیامت تک رسول اللہ اللہ تعالیٰ کے (فراق کے) غم میں روتا رہتا پھر اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے زمین میں دفن کردیا گیا۔
امام بزار نے اپنی سند کے ساتھ حسن سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اپنے ساتھ چمٹایا تو وہ پرسکون ہوگیا۔

MAKT_PAK
 

امام بخاری کی ایک اور روایت میں ہے وہ کھجور کا تنا اس طرح چلا رہا تھا جیسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اپنے بچے کے فراق میں چلاتی ہے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ پرسکون ہوگیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3585 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :495 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :1124، مسند احمد رقم الحدیث :21295، عالم الکتب بیروت)
حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ نے اس حدیث کو متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے :

MAKT_PAK
 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن ایک درخت یا کھجور (کے تنے) کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، انصار کی کسی عورت یا مرد نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے لئے منبر نہ بنادیں ڈ آپ نے فرمایا اگر تم چاہوچ انہوں نے منبر بنادیا جب جمعہ کا دن آیا تو آپ منبر کی طرف گئے تو وہ کھجور کا تنا بچے کی طرح زور زور سے رونے لگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر سے اتر کر اس کو اپنے ساتھ لپٹایا تو وہ سسکیاں لینے لگا پھر سرکون ہوگیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3584)

MAKT_PAK
 

ایک اور سند سے امام بیہقی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے ہمارا ایک درخت کے پاس سے گزر ہوا، اس میں سرخ پرندہ کے دو چوزے تھے ہم نے وہ اٹھا لیے وہ سرخ پرندہ آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرنے لگا، آپ نے فرمایا : ان کو واپس رکھ دو ۔ سو ہم نے ان کو واپس رکھ دیا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :5268-2675 دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 32-33 البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 546-547 الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص 63)
ان احادیث میں حیوانوں اور پرندوں پر آپ کی رحمت کا ذکر ہے اور درختوں اور جمادات پر رحمت کا ذکر درج ذیل احادیث میں ہے :

MAKT_PAK
 

امام بیہقی کی ایک اور روایت میں ہے :
حضرت زید بن ارقم نے کہا اللہ کی قسم ! میں نے دیکھا، وہ ہرنی جنگل میں چلاتی ہوئی جا رہی تھی اور کہہ رہی تھی : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 35، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 543 الخصائص الکبریٰ ج ٢ ص 61 دلائل النبوۃ ابی نعیم رقم الحدیث :320)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، ہمارا درختوں کے پاس سے گزر ہوا ایک شخص ان میں گیا اور سرخ پرندہ کے انڈے نکال لایا، وہ سرخ پرندے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کے اوپر اپنے بازو پھیلانے لگے۔ آپ نے فرمایا ان کے انڈے کس نے جمع کئے ہیں ؟ ایک شخص نے کہا میں نے ان کے انڈے لئے ہیں۔ آپ نے ان پرندوں پر رحمت فرماتے ہوئے فرمایا ان کے انڈے واپس کرو۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 32)

MAKT_PAK
 

حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہرنی کے پاس سے گزرے جو ایک خیمہ میں بندھی ہوئی تھی، اس ہرنی نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے کھول دیجیے تاکہ میں اپنے بچوں کو جا کر دودھ پلا آئوں پھر میں واپس آجائوں گی تو آپ مجھے باندھ دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ایک قوم کا شکار ہے اور اس کی باندھی ہوئی ہے پھر آپ نے اس سے عہد لیا کہ وہ ضرور واپس آئے گی پھر اس کو کھول دیا۔ وہ تھوڑی دیر میں واپس آگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو باندھ دیا پھر خیمہ والے آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ان سے مانگ لیا۔ انہوں نے وہ ہرنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردی، آپ نے اس کو کھول دیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 34، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 543، الخصائص الکبریٰ ج ٢

MAKT_PAK
 

حضرت یعلیٰ بن مرہ الثفقی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تین چیزیں دیکھیں ایک دن ہم آپ کے ساتھ ایک سفر میں جارہے تھے، ہمارا ایک اونٹ کے پاس سے گزر ہوا جب اونٹ نے آپ کو دیکھا تو بڑ بڑ کرنے لگا اور اپنی گردن آگے بڑھائی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس ٹھہر گئے اور فرمایا اس کا مالک کون ہے وہ شخص آگیا۔ آپ نے فرمایا اس اونٹ کو مجھے بیچ دو ۔ اس نے کہا نہیں میں آپ کو ہبہ کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں مجھ کو فرخت کردو۔ اس نے کہا نہیں، میں آپ کو ہبہ کرت اہوں، ہمارے گھر والوں کی گزر اوقات کے لئے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا : جب تم نے یہ کہا ہے تو سنو، اس اونٹ مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو او اس کو چارہ کم ڈالتے ہو، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (مسند احمد رقم الحدیث :17570، دا

MAKT_PAK
 

انصار کا ایک جوان آیا اور اس کے کان کی ہڈی کے پیچھے ہاتھ پھیرا تو وہ پرسکون ہوگیا پھر آپ نے فرمایا یہ اونٹ کس کا ہے ؟ انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ یہ اونٹ میرا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تم ان جانوروں کے معاملہ میں خدا سے نہیں ڈرتے ؟ جن کا اللہ نے تمہیں مالک بنادیا ہے۔ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ اس کو تم بھوکا رکھتے ہو اور کام لے لے کر اس کو تھکا دیتے ہو۔ (مسند احمد ج ۃ ص 436 طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :1745 دارالفکر، جدید، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 531 دارالفکر جدید)

MAKT_PAK
 

حیوانات اور جمادات پر رحمت کے متعلق احادیث
حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر مجھے اپنے ساتھ بٹھایا پھر مجھے چپکے سے ایک بات بتائی جو میں کبھی بھی کسی کو نہیں بتائوں گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قضاء حاجت کے لئے کسی ٹیلہ یا گنجان اور گھنے کھجور کے درختوں کی اوٹ میں جانا پسند کرتے تھے۔ آپ انصار کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے وہاں ایک اونٹ آیا اور اس نے بڑ بڑ کر کے آپ سے کچھ کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے کان کی ہڈی کے پیچھے ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہوگیا پھر آپ نے فرمایا یہ اونٹ کس کا ہے ؟

MAKT_PAK
 

پھر آپ نے دونوں ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اے اللہ ! میری امت، میری امت اور آپ روئے، تب اللہ عزوجل نے فرمایا : اے جبریل ! محمد کے پاس جائو اور تمہارا رب خوب جانتا ہے، ان سے سوال کرو، انہیں کیا رلاتی ہے ؟ پھر آپ کے پاس عزوجل نے فرمایا، اے جبریل ! محمد کے پاس جائو اور ان سے کہو ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں رضائی کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ ہونے نہیں دیں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :202، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11269)

MAKT_PAK
 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کو پڑھا :
رب انھن اضللن کثیراً من الناس فمن تبغنی فانہ منی (ابراہیم :36) اے میرے رب ! ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے سو جس نے میری پیروی کی، وہ میرے طریقہ پر ہے۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :
ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ :118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو بیشک تو بہت غلبہ والا بہت حکمت والا ہے۔

MAKT_PAK
 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کو پڑھا :
رب انھن اضللن کثیراً من الناس فمن تبغنی فانہ منی (ابراہیم :36) اے میرے رب ! ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے سو جس نے میری پیروی کی، وہ میرے طریقہ پر ہے۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :
ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ :118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو بیشک تو بہت غلبہ والا بہت حکمت والا ہے۔

MAKT_PAK
 

پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر ائے اور آپ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، چوتھی رات کو اتنے زیادہ لوگ آگئے کہ مسجد تنگ پڑگئی حتیٰ کہ آپ صبح کی نماز پڑھانے کے لئے آئے جب آپ نے صبح کی نماز پڑھا دی تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا : حمد و صلاۃ کے بعد مجھ پر تمہارا اشتیاق مخفی نہیں تھا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر یہ نماز فرض کردی جائے گی پھر تم اس کو پڑھنے سے عاجز ہو جائو گے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور لوگوں کا عمل اسی طرح رہا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2012 سنن ابودائود رقم الحدیث :710 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :956، سنن النائی رقم الحدیث :758 مسند احمد رقم الحدیث 25069 عالم الکتب)

MAKT_PAK
 

حضرت زید بن خالد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مئوخر کر کے پڑھنے کا حکم دیتا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :23، سنن ابودائود رقم الحدیث :47، شرح السنتہ رقم الحدیث :198، مسند حمد ج ٤ ص 116 المسند الجامع رقم الحدیث 3908)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات کو باہر آئے اور مسجد میں نماز پڑھی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر لوگوں نے ایک دوسرے سے اس کا ذکر کیا، پھر (دوسری رات) اس سے بہت زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر صبح انہوں نے (دوسرے لوگوں کو) بتایا، پھر تیسری رات کو مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوگئے

MAKT_PAK
 

مسلمانوں پر آپ کی رحمت کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا، اے لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کردیا ہے سو تم حج کرو۔ ایک شخص نے کہا کیا ہر سال ؟ یا رسول اللہ ! آپ خاموش رہے حتیٰ کہک اس نے تین بار سوال کیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے پھر فرمایا جس چیز میں میں تم کو (بیان کرنا) چھوڑ دوں اس چیز میں تم مجھ کو چھوڑ دیا کرو تم سے پہلی امتیں زیادہ سوال کرنے اور اپنے نبیوں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو تم اس کو بہ قدر استطاعت کرلو اور میں جب تم کو کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1337، سنن النسائی رقم الح

MAKT_PAK
 

ابوسفیان نے معتدد بار مدینہ پر حملے کئے۔ وحشی نے آپ کے عزیز چچا کو قتل کیا، ہند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چا چبایا۔ ہبار بن اسود نے آپ کی صاحبزادی کو سواری سے گرا دیا جس سے ان کا حمل ساقط ہوگیا اور جب ان سب کی گردنیں آپ کی تلوار کے نیچے تھیں، آپ نے ان سب کو معاف کردیا۔ عبداللہ بن ابی نے بہت ایذائیں پہنچائی تھیں لیکن جب اس نے مرتے وقت درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھادی۔ ان تمام احادیث کی تفصیل اور حوالہ جات تبیان القرآن ج ٢ ص 419-427 میں ملاحظہ فرمائیں۔

MAKT_PAK
 

حضرت انس کہتے ہیں کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو کندھوں کے درمیان نشان پڑگیا تھا پھر اس نے کہا اے محمد ! آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے، اس میں سے مجھے دین کا حکم دیجیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف متوجہ ہو کر مسکرائے پھر اس کو مال دینے کا حکم دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3149، صحیح مسلم رقم الحدیث :1057، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3553)
سراقہ بن مالک آپ کا سر اتارنے کے لئے آپ کا پیچھا کر رہا تھا، آپ نے اس پر قابو پا کر اسے معاف کردیا۔ صفوان بن امیہ نے عمیر بن وہب کو زہر میں بجھی ہوئی تلوار دے کر آپ کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا جب وہ آپ کی دسترس میں آیا تو آپ نے اس کو معاف کردیا، بعد میں صفوان کو بھی معاف کردیا۔

MAKT_PAK
 

(صحیح البخاری رقم الحدیث :3231 صحیح مسلم رقم الحدیث :1795، السنن الکبری للنسائی 7706)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کبھی اتنقام نہیں لای، ہاں اگر اللہ کی حدود کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لئے انتقام لیتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :68530 سنن ابو دائود رقم الحدیث :4785 شمائل ترمذی رقم الحدیث :349، مئوطا امام مالک رقم الحدیث :563
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا اس وقت آپ ر ایک نجرانی (یمنی) چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ راستہ میں ایک اعرابی (دیہاتی) ملا، اس نے بہت زور سے آپ کی چادر کھینچی۔

MAKT_PAK
 

میں اپنے غمزدہ چہرے کے ساتھ واپس آیا، ابیھ میں قرن الثعالب میں پہنچا تھا کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھ پر ایک بادل نے سایہ کیا ہوا تھا میں نے دیکھا اس بادل میں جبریل (علیہ السلام) تھے۔ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا بیشک اللہ نے سن لیا کہ آپ کی قوم نے کیا کہا اور آپ کو کیا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپس کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کافروں کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں، پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام کر کے کہا اے محمد ! آپ جو چاہیں میں وہ کر دوں ! اگر آپ چاہیں تو میں ان کے اوپر مکہ کے دو پہاڑوں کو گرا کر انہیں زمین میں پیس دوں ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی پیٹھوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔