Damadam.pk
MAKT_PAK's posts | Damadam

MAKT_PAK's posts:

MAKT_PAK
 

(صحیح البخاری رقم الحدیث :3231 صحیح مسلم رقم الحدیث :1795، السنن الکبری للنسائی 7706)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کبھی اتنقام نہیں لای، ہاں اگر اللہ کی حدود کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کے لئے انتقام لیتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :68530 سنن ابو دائود رقم الحدیث :4785 شمائل ترمذی رقم الحدیث :349، مئوطا امام مالک رقم الحدیث :563
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا اس وقت آپ ر ایک نجرانی (یمنی) چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ راستہ میں ایک اعرابی (دیہاتی) ملا، اس نے بہت زور سے آپ کی چادر کھینچی۔

MAKT_PAK
 

میں اپنے غمزدہ چہرے کے ساتھ واپس آیا، ابیھ میں قرن الثعالب میں پہنچا تھا کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مجھ پر ایک بادل نے سایہ کیا ہوا تھا میں نے دیکھا اس بادل میں جبریل (علیہ السلام) تھے۔ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا بیشک اللہ نے سن لیا کہ آپ کی قوم نے کیا کہا اور آپ کو کیا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپس کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کافروں کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں، پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو سلام کر کے کہا اے محمد ! آپ جو چاہیں میں وہ کر دوں ! اگر آپ چاہیں تو میں ان کے اوپر مکہ کے دو پہاڑوں کو گرا کر انہیں زمین میں پیس دوں ؟ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی پیٹھوں سے ایسے لوگوں کو نکالے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔

MAKT_PAK
 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں صرف رحمت ہوں، اللہ کی طرف سے ہدایت۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ۃ ص 158 المعجم الصغیر رقم الحدیث :264 المستدرک ج ١ ص 35 کامل ابن عدی ج ٤ ص 231)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ ! کیا غزوہ احد کے دن سے بھی کوئی سخت دن آپ پر آیا تھا ؟ آپ نے فرمایا : مجھے تمہاری قوم کی طرف سے جن سختویں کا سامنا ہوا سو ہوا اور ان کی طرف سے سب سے زیادہ سخت دن وہ تھا جو یوم العقبہ (جب آپ طائف کی گھاٹیوں میں تبلیغ کے لئے جاتے تھے) کو پیش آیا جب میں نے ابن عبدیالیل بن عبدکلال کو اسلام کی دعوت دی، اس نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا۔

MAKT_PAK
 

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام متقین کے لئے ہدایت بنا کر بھیجا ہے۔ (مسند حمد ج ٥ ص 257 المعجم الکبیر رقم الحدیث :7803 مجمع الزوائد ج ٥ ص 72)
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اپنی امت کے جس شخص کو بھی غصہ میں برا کہا یا اس پر لعنت کی تو میں بنو آدم کا ایک فرد ہوں، مجھے بھی اس طرح غصہ آتا ہے جس طرح انہیں غصہ آتا ہے اور اللہ نے تو مجھے صرف تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اے اللہ ! قیامت کے دن اس برا کہنے کو اس کے لئے دعائے خیر بنا دے۔ (مسند احمد ج ٥ ص 1437، المعجم الکبیر رقم الحدیث :6156)

MAKT_PAK
 

آپ کی رحمت کے عموم کے متعلق احادیث
امام ابن جریر حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لایا اس کے لئے دنیا اور آخرت میں رحمت لکھ دی جاتی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لایا اس کو دنیا میں زمین میں دھنسانے اور اس پر پتھر برسانے کے اس عذاب سے محفوظ رکھا جاتا ہے جس عذاب میں پہلی امتیں مبتلا ہوتی رہی ہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :8820، الدرا المنثور ج ٥ ص 687)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کے خلاف دعا کیجیے آپ نے فرمایا : مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2599، الوفاء رقم الحدیث :754)

MAKT_PAK
 

جو ان کو نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا جو ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرے گا اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرے گا اور جو ان سے (مشکل احکام کے) بوجھ اتارے گا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے سختویں کے طوق اتار کر پھینک دے گا۔
نبی صلی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ذکر اس آیت میں بھی ہے :
(التوبۃ :128) بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے ہیں، تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت شاق ہے، تمہاری فلاح پر بہت حریص ہیں اور مومنوں پر بہت شفیق، نہایت مہربان ہیں۔
امت کے سخت اور مشقت والے احکام کون سے تھے اور آپ نے ان کو کیسے دور فرمایا اور دنیا اور آخرت کی فلاح آپ نے کیسے عطا فرمائی، اس کی تفصیل ہم نے تبیان القرآن ج ٥ ص 305-307میں بیان کردی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

MAKT_PAK
 

غرض بہت سخت احکام تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چاہا کہ ان کے یہ سخت احکام آسان ہوجائیں اور آخرت کی بھلائی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کم عمل پر زیادہ اجر عطا فرمائے، ان کو ایک نیکی پر ایک ہی اجر ملتا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ ایک نیکی پر دس گنا یا سات سو گنا اجر عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کی یہ خیر اور رحمت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے بجائے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے لکھ دی فرمایا میں ان لوگوں کے لئے یہ خیر اور رحمت لکھ دوں گا جو :
(الاعراف :157) جو لوگ اس عظیم رسول نبی امی کی پیروی کریں گے جس کو وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں،

MAKT_PAK
 

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا ہے۔ فرمایا میں اپنا عذاب تو جسے چاہے اسے پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے تو عنقریب میں اس (دنیا اور آخرت کی بھلائی) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو گناہوں سے بچیں گے اور زکواۃ دیں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ (الاعراف :156)
اس آیت میں دنیا کی بھلائی سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں احکام شرعیہ آسان ہوں کیونکہ بنو اسرائیل پر بہت مشکل احکام تھے۔ ان کی توبہ یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کردیں، ان کو تمیم کی سہولت حاصل نہ تھی، مال غنیمت حلال نہیں تھا، قربانی کو کھانے کی اجازت نہیں تھی، قصاص لازم تھا، دیت کی رخصت نہیں تھی، ہفتہ کے دن شکار کی اجازت نہیں تھی روزے کا دورانیہ رات اور دن کو محیط تھا،

MAKT_PAK
 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کی بات کو ناپسند فرمایا پھر انصا میں سے ایک شخص نے کہایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خرچ کیجیے اور عشر والے سے تنگی کا خوف نہ کیجیے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبسم فرمایا اور آپ کے چہرے پر انصاری کی بات سے خشوی کے آثار دکھائی دیئے پھر آپ نے فرمایا : مجھے اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے۔ (شمئال ترمذی رقم الحدیث :356، مسند البز اور رقم الحدیث :3662 البحر الزخار رقم الحدیث :273، مجمع الزوائد ج 10 ص 242)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تورات اور انجیل میں بعض یہ صفات مذکور ہیں :
ویضع عنھم اصرھم والاغلل التی کا نت علیھم (الاعراف :157) جو ان سے ان کے (مشکل احکام کے) بوجھ اتارے گا اور ان کے گلے میں پڑے ہوئے (سختویں کے) طوق اتار کر پھینک دے گا۔

MAKT_PAK
 

ص 85 مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث 17924)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے اس کے جواب میں ” نہ “ نہیں فرمایا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6034 صحیح مسلم رقم الحدیث :2311، شمئال ترمذی رقم الحدیث :353 مسند حمد ج ٣ ص 307)
حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا کہ آپ اس کو کچھ عطا فرمائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت میرے پاس نہیں ہے، تم اس کو میری طرف سے ادھار خرید لو جب میرے پاس رقم آئے گی تو میں ادا کر دوں گا۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اس کو عطا کرچکے ہیں اور جس چیز پر آپ قادر نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا مکلف نہیں کیا۔

MAKT_PAK
 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کے سوا کبھی کسی کو نہیں مارا نہ کبھی کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا اور نہ کبھی کسی خادم کو مارا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2328 شمائل ترمذی رقم الحدیث :349، مسند احمد ج ٦ ص 31 مصنف ابن شیبہ ج ٨ ص 368)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کسی زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا سوا اس کے کہ اللہ کی حدود کو پامال کیا جائے جب اللہ کی حد توڑی جاتی تو آپ سب سے زیادہ غضب ناک ہوتے اور آپ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ آسان چیز کو اختیار کرتے بہ شرطیہ کہ وہ گناہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3560، 6126، صحیح مسلم رقم الحدیث :2327، سنن ابودائود رقم الحدیث :4785 شمائل ترمذی رقم الحدیث :350 مسند احمد ج ٦

MAKT_PAK
 

اللہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کو اس سے زیادہ ایذاء دی گی تھی تو انہوں نے صبر کیا تھا۔ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تالی قلب کے لئے بعض تو مسلموں کو دوسروں سے زیادہ حصہ دیتے تھے) (صحیح البخاری رقم الحدیث :3150 صحیح مسلم رقم الحدیث :1068، مسند احمد رقم الحدیث :3608، مسند حمیدی رقم الحدیث 110)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ق
فطرتا بد گو تھے، نہ تکلفاً بدگوئیاں کرتے تھے اور نہ بازاروں میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث :348، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص 330 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6409 سنن بیہقی ج ٧ ص 45)

MAKT_PAK
 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو زیادہ دیا، آپ نے اقرع بن حابس کو سوا اونٹ دیئے اور عینیہ کو بھی اتنے ہی دیئے اور عرب سرداروں کے لوگوں کو بھی کچھ عطا فرمایا اور اس دن آپ نے تقسیم میں (بعض لوگوں کو) ترجیح دی۔ ایک شخص نے کہا اس تقسیم میں عدل نہیں کیا گیا اور نہ اس میں اللہ کی رضا کا ارادہ کیا گیا ہے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں ضرور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دوں گا۔ میں نے جا کر آپ کو خبر دی، آپ نے فرمایا : جب اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو پھر اور کون عدل کرے گا۔

MAKT_PAK
 

رسول اللہ کی رحمت کے متعلق دیگر آیات اور ان کی تفسیر میں احادیث
اس آیت کے علاؤہ قرآن مجید کی اور آیات میں بھی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ذکر فرمایا ہے :
(آل عمران :159) سو اللہ کی عظیم رحمت سے آپ مسلمانوں کے لئے نرم ہوگئے اور اگر آپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ ضرور آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر ایک شخص نے اپنے قرض کا سختی سے تقاضا کیا آپ کے اصحاب نے اس کو ڈانٹنے یا مارنے کا قصد کیا۔ آپ نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو کیونکہ جس کا حق ہوتا ہے، اس کو بات کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2401 سنن النسائی رقم الحدیث :4417، سنن الترمذی رقم الحدیث :1316، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، 2423)

MAKT_PAK
 

ہم رحمۃ للعالمین کی تفسیر میں پہلے آپ کی رحمت کے متعلق قرآن مجید کی دیگر آیات اور ان کی تفسیر پیش کریں گے پھر آپ کی رحمت کے عموم پر احادیث اور آثار کا ذکر کریں گے، پھر خصوصیت کے ساتھ مومنین پر رحمت کی احادیث کو بیان کریں گے پھر حیوانوں، درختوں اور جمادات پر آپ کی رحمت کی احادیث کو بیان کریں گے جس سے ظاہر ہوجائے گا کہ آپ عالم کے ذرہ ذرہ کے لئے رحمت ہیں۔ غالب نے کہا ہے :
ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمت للعلمینے ہم بود
اور آخر میں آپ کی رحمت پر اعترضات کے جوابات بیان کریں گے قنقول وباللہ التوفیق و بہ الاستغانۃ یلیق

MAKT_PAK
 

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو :: چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو :: بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے :: نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے :: عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود:: فقر جنید و بایزید تیرا جمال بےنقاب
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے :: غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ شعق و مستی میں وہی اول وہی آخر:: وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہ

MAKT_PAK
 

مکلف ہو یا غیر مکلف انسان ہو، جن ہو یا فرشتہ ہو، حیوان ہو یا شجر و حجر ہو آپ سب کے لئے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ رب العلمین ہے اور آپ رحمتہ اللعالمین ہیں جس جس چیز کے لئے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے اس اس چیز کے لئے آپ رحمت ہیں، وجود عین جود ہے اور ہر چیز کو وجود آپ کے واسطہ سے ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو عطا کرنے والا ہے اور آپ ہر چیز کو تقسیم کرنے والے ہیں۔ آپ کی کنیت ابو القاسم صرف اس لئے نہیں تھی کہ آپ کے فرزند اور جمند کا نام قاسم تھا بلکہ ابوالقاسم کا معنی ہے سب سے زیادہ تقسیم کرنے والے اور ابتداء آفرینش عالم سے لے کر قیامت تک جس کو بھی جو نعمت ملتی ہے وہ آپ کی تقسیم سے ملتی ہے۔
تمام دینی اور دنیاوی امور میں آپ ابتداء آفرینش عالم سے تقسیم کرنے والے ہیں۔

MAKT_PAK
 

اس آیت کا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور تواتر اور اجماع سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو رحمتہ للعالمین کا مصداق قرار دیا گیا ہے اس کے خلاف ہے۔ اسی طرح مفسرین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر عالم کے لئے رحمت ہیں خواہ فرشتوں کا عالم ہو، جنتا کا عالم ہو، انسانوں کا عالم ہو اور خواہ انسانوں میں سے کافر ہوں، مسلمان ہوں، اولیاء ہوں یا انبیاء (علیہم السلام) ہوں، آپ سب کے لئے رحمت ہیں اور خواہ حیوانوں کا عالم ہو، یا نباتات کا عالم ہو یا جمادات کا عالم ہو، آپ ہر ہر عالم کے لئے رحمت ہیں، اس لئے شیخ محمود الحسن کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے کہ آپ صرف لوگوں کے لئے رحمت ہیں اور نہ شیخ تھانوی کا یہ رتجمہ اور تفسیر صحیح ہے کہ آپ صرف مکلفین کے لئے رحمت ہیں۔

MAKT_PAK
 

اور میرا یہ نظریہ کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) العلمین کے ہر فرد کے لئے رحمت ہیں خواہ وہ فرشتوں کا عالم ہو یا انسانوں کا عالم ہو یا جنات کا عالم ہو، اور انسانوں میں بھی آپ مومنوں اور افروں سب کے لئے رحمت ہیں، اسی طرح جنات میں بھی سب کے لئے رحمت ہیں، البتہ رحمت کا فیضان ہر فرد پر اس کی صلاحیت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ (روح المعانی جز 17 ص 155 ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1417 ھ)
رحمۃ للعالمین کی تفسیر مصنف سے
ہمارے نزدیک اس آیت کریمہ کا مصداق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ذات گرامی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو سراپا اور مجسم رحمت بنا کر بھیجا ہے اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے : اے محمد ! ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔

MAKT_PAK
 

سو دنیا میں جو بھی خیر اور نیکی ہے وہ آثار نبوت سے ہے اور جو شر اور برائی ہے وہ آثار نبوت کے مٹ جانے یا چھپ جانے کی وجہ سے ہے۔
پس یہ عالم ایک جسم ہے اور نبوت اس کی روح ہے اور جب زمین پر نبوت کے آثار میں سے کوئی اثر باقی نہیں رہے گا تو آسمان پھٹج ائے گا، ساترے بکھر جائیں گے، سورج کو لپیٹ دیا جائے گا، چاند تاریک ہوجائے گا، پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر روئی کے گالوں کی طرح منتشر کردیا جائے گا، زمین میں زلزلہ آجائے گا اور جو لوگ زمین کے اوپر ہیں وہ سب ہلاک ہوجائیں گے۔
پس اس جہان کا قیام آثار نبوت کی وجہ سے ہے اور جب نبوت کا کوئی اور شیخ تھانوی وغیرہ) میرے نزدیک یہ لوگ اس حق پر مطلع نہیں ہو سکے جس کی اتباع واجب ہے اور حقائق پر مطلع ہو کر ان لوگوں کا رد کرنا بہت آسان ہے۔