حکومت پاکستان میں روٹی سستی کرتی ہے تو تندور والے روٹی مہنگی فروخت کرتے ہیں۔ روٹی خریدنے والا بچارا مزدور کہاں جائے؟ بہت شرم آتی ہے جب ایسی منافقت دیکھنے کو جگہ جگہ ملتی ہے۔
میرے پڑوس میں تقریباً چھ یا پھر سات تندور ہیں اور فی روٹی سب پہ پچیس یا تیس روپے کی مل رہی ہے۔ اسکے علاؤہ کل ایریا سے باہر کھانا کھانے گئے تو وہاں روٹی پانچ روپے مذید مہنگی ملی۔ اسکو کیا کہتے ہیں کوئی مجھے بتائے گا؟
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی محسن نقوی
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں محسن نقوی
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا محسن نقوی
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں علامہ اقبال
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں علامہ اقبال
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں کبھی سنو تو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں میں خود بھی ڈوب رہا ہوں ہر اک ستارے میں کہ یہ چراغ مرے حسب حال سے کچھ ہیں غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی اس آئنے میں ترے خد و خال سے کچھ ہیں اک اور موج کہ اے سیل اشتباہ ابھی ہماری کشت یقیں میں خیال سے کچھ ہیں ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں امجد اسلام امجد
ھر قدم گریزاں تھا ، ھر نظر میں وحشت تھی مَصلحت پرستوں کی ، رھبری قیامت تھی منزل تمنا تک کون ساتھ دیتا ھے ؟؟ گردِ سعئ لا حاصل ، ھر سفر کی قسمت تھی آپ ھی بگڑتا تھا ، آپ مَن بھی جاتا تھا اُس گریز پہلو کی ، یہ عجیب عادت تھی اُس نے حال پوچھا تو ، یاد ھی نہ آتا تھا کِس کو کِس سے شکوہ تھا ؟کس سے کیا شکایت تھی ؟ دشت میں ھَواؤں کی ، بے رُخی نے مارا ھے شہر میں زمانے کی ، پُوچھ گچھ سے وحشت تھی یوں تو دِن دھاڑے بھی ، لوگ لُوٹ لیتے ھیں لیکن اُن نگاھوں کی ، اور ھی سیاست تھی ھجر کا زمانہ بھی ، کیا غضب زمانہ تھا آنکھ میں سمندر تھا ، دھیان میں وہ صُورت تھی امجد اسلام امجد
کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے پھر اس کے بعد ہمیں آئنوں سے ڈرنا ہے فلک کی بند گلی کے فقیر ہیں تارے! کہ گھوم پھر کے یہیں سے انہیں گزرنا ہے جو زندگی تھی مری جان! تیرے ساتھ گئی بس اب تو عمر کے نقشے میں وقت بھرنا ہے جو تم چلو تو ابھی دو قدم میں کٹ جائے جو فاصلہ مجھے صدیوں میں پار کرنا ہے تو کیوں نہ آج یہیں پر قیام ہو جائے کہ شب قریب ہے آخر کہیں ٹھہرنا ہے وہ میرا سیل طلب ہو کہ تیری رعنائی چڑھا ہے جو بھی سمندر اسے اترنا ہے سحر ہوئی تو ستاروں نے موند لیں آنکھیں وہ کیا کریں کہ جنہیں انتظار کرنا ہے یہ خواب ہے کہ حقیقت خبر نہیں امجدؔ مگر ہے جینا یہیں پر یہیں پہ مرنا ہے امجد اسلام امجد
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے امجد اسلام امجد
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain