ترجمہ: اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"الجنة تحت أقدام الأمهات"
(مسند احمد، 1669)
ترجمہ: جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
لہٰذا جو اپنی ماں کا ادب نہ کرے، وہ دین سے دور ہے۔
صحابہ کرام کی شان اور قرآن کا حکم:
قرآن مجید میں فرمایا:
وَٱلسّٰبِقونَ ٱلأَوَّلونَ مِنَ ٱلمُهٰجِرينَ وَٱلأَنصارِ وَٱلَّذينَ ٱتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنهُم وَرَضوا۟ عَنهُ
(سورة التوبہ: 100)
ترجمہ: اور جو مہاجرین و انصار سبقت لے گئے اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
حدیث میں فرمایا:
"لا تسبوا أصحابي، فوالذي نفسي بيده لو أنفق أحدكم مثل أحد ذهبًا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه"
موضوع:
عزاداری کی آڑ میں صحابہ کرام پر زبان درازی کرنے کا شرعی حکم
مصنف:
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
میں ابھی یہ مکمل تحریر پیش کر رہا ہوں:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فتویٰ و اصلاحی تحریر
موضوع: عزاداری کی آڑ میں صحابہ کرام پر زبان درازی کرنے کا شرعی حکم
تحریر: حکیم الامت ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
مقدمہ:
آج کے بعض حلقے محرم الحرام میں عزاداری کی آڑ لے کر اسلام کے مقدس ترین شخصیات، یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر زبان درازی کرتے ہیں۔ ان کا یہ فعل قرآن و حدیث اور اجماع امت کے خلاف اور کھلی گمراہی ہے۔
ماں کے مقام پر قرآن و حدیث:
اللہ تعالیٰ نے ماں کا مقام عظیم فرمایا:
وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا۟ إِلّآ إِيّاهُ وَبِٱلوَٰلِدَينِ إِحسَٰنًا
(سورة الإسراء: 23)

قرآن میں فرمایا گیا:
> "بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔"
(سورة البقرہ: 160)
خلاصہ
1. برائی کو وائرل کرنا چاہے اصلاح کے نام پر ہو اسلام میں جائز نہیں۔
2. غیبت فحاشی اور بے حیائی کو عام کرنا سخت گناہ ہے۔
3. سوشل میڈیا پر فتنے پھیلانے والے لوگ نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
4. ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اصلاح کا وہی طریقہ اختیار کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا۔
5. توبہ اور رجوع کا راستہ کھلا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرنے پر قادر ہے۔
دعا
اللہ رب العزت ہمیں فتنے کے دور میں حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور باطل کو باطل جان کر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
والسلام
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
آجکے دور کا فتنہ
سوشل میڈیا نے لوگوں کو وہ زبان دی ہے، جس سے وہ پل بھر میں فتنہ اور فحاشی کو ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔لوگ فلموں اور گانوں کے کلپس پر تبصرے کر کے، برے کرداروں کی ویڈیوز بنا کر یا مزاحیہ ویڈیوز کے نام پر برائی پھیلا رہے ہیں۔یہ عمل نہ نیکی ہے اور نہ اصلاح بلکہ فتنہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "آخر زمانے میں فتنے ایسے تیزی سے آئیں گے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے۔"
(مسند احمد)
ہمیں چاہیے کہ ان فتنوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔اصلاح کے نام پر فحاشی کو پھیلانا خود گناہِ کبیرہ ہے۔
توبہ اور رجوع کا راستہ
اسلام میں توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔جس نے لاعلمی میں یا اصلاح کے نام پر ایسا کوئی عمل کیا ہو وہ فوراً اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ کے لیے اس فتنہ سے بچے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جو اس میں ہو اور اگر وہ بات اس میں نہ ہو تو یہ بہتان ہے۔"
(مسلم شریف)
مزید فرمایا:
> "جو لوگ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔"
(سورة النور: 19)
اصلاح کا شرعی طریقہ
اسلام میں برائی کو دیکھ کر اس کا صحیح طریقے سے سدباب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
> "تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر یہ نہ کر سکے تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔"
(مسلم شریف)
یعنی برائی کو برا کہنا تو چاہیے لیکن اسے وائرل کرنا اس پر تبصرے کرنا اور خود اس کا حصہ بن جانا قطعاً جائز نہیں۔
آجکل سوشل میڈیا، یوٹیوب، اور دیگر پلیٹ فارمز پر لوگ فلموں، گانوں، فحش ویڈیوز پر تبصرے کرتے ہیں۔بعض تو ان ویڈیوز کو برائی کی نشاندہی کے نام پر دوسروں تک پھیلاتے ہیں۔یہ عمل بظاہر اصلاح کا لگتا ہے لیکن حقیقت میں خود گناہ ہے۔
کیونکہ برائی کو مزید پھیلانا،اس کا تذکرہ کرنا اور اس پر تبصرے کر کے دوسروں کو اس کی جانب متوجہ کرنا،اسلام میں حرام اور فتنہ انگیزی ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت
ارشاد باری تعالیٰ:
> "اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔"
(سورة الحجرات: 12)
"گناہ کو نیکی سمجھ کر کرنے والے"
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
ابتدائیہ:
آج کے اس دورِ فتن میں حق و باطل کی پہچان دن بہ دن مشکل ہو رہی ہے۔ لوگ ایسے کام جو سراسر گناہ اور نافرمانی ہیں، انہیں نیکی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے مزین کر دیا ہے اور لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم اصلاح کر رہے ہیں، حالانکہ وہ خود فتنے کا حصہ بنے بیٹھے ہیں۔
یہ کتابچہ انہی گمراہ کن رویوں کی نشاندہی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں راہنمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گناہ کو نیکی سمجھنے کا فتنہ
اسلام میں ہر اچھے اور برے عمل کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ کوئی بھی نیکی صرف نیک نیت سے ہی نہیں، بلکہ شریعت کے دائرے میں رہ کر ہی قابل قبول ہے۔
الله اكبر
الله اكبر

ایک اور فتنے جاہل کا میری پوسٹ پہ آنا ہوا گالیاں دیتے ہوئے جسکا اکاؤنٹ میں نے بند کر دیا
Life.lineeee اکاؤنٹ ہے۔

مقبوضہ کشمیر آزاد کرایا نہیں جاتا اور باتیں کرتے ہیں فلسطین آزاد کرانے کی
😂
ورنہ آپکی دی ہوئی رقم بھی نوسربازوں کے پیٹ میں جائے گی، اور وہ لوگ نیکی کے نام پر گناہ کے مرتکب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح نیکی کرنے اور دھوکے سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین۔
اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی خبردار کریں۔
عنوان: غزہ فلسطین کے نام پر چندہ — ہوشیار رہیے!
آج کل ہمارے معاشرے میں کچھ نوسرباز عناصر نے نیکی کے نام پر دھوکہ دہی کا نیا طریقہ نکال لیا ہے۔ کینسر، یتیم بچوں، معذور افراد کے نام پر بھیک مانگنے کے بہانے پرانی ہو چکی تھیں، تو اب ان لوگوں نے غزہ، فلسطین، مظلوم مسلمانوں کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔
ایسے افراد سڑکوں، بازاروں، چوکوں اور دروازوں پر آ کر جعلی رسیدیں اور بینر دکھا کر چندہ مانگتے ہیں، اور بدقسمتی سے اکثر لوگ جذبے میں آ کر بغیر تحقیق کے پیسے دے دیتے ہیں۔
یاد رکھیے!
صدقہ اور خیرات ایک عبادت ہے، اور عبادت میں احتیاط لازم ہے۔
کسی کو بھی چندہ دینے سے پہلے یہ تصدیق کر لیں کہ وہ شخص یا ادارہ واقعی مستند ہے اور آپ کی دی گئی رقم صحیح جگہ پہنچ رہی ہے۔
اسلام میں بدفعلی (لواطت) مرد ہو یا عورت یا کوئی مخنث سب کے لیے سخت حرام اور قابلِ سزا جرم ہے۔چاہے کوئی بھی شخص ہو، ایسا عمل کرنے والے کے لیے قرآن اور حدیث میں سخت وعید آئی ہے:
> "اور ہم نے لوط کی قوم پر پتھر برسائے کیونکہ وہ بدفعلی کے مرتکب تھے۔"
(سورۃ الاعراف: 84)
لہٰذا اگر کوئی ہیجڑا یا عام مرد عورت ایسا گناہ کرے تو وہ اپنی ذات کا ذمہ دار ہے اور سبھی لوگ برے نہیں ہوتے۔ہر قوم،ہر گروہ،ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہیجڑوں کی بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں ظلم،بیکسی اور معاشرتی طعنوں کا شکار ہوتی ہے،جس کی وجہ سے کئی بار وہ غلط راستوں پر چلے جاتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے ایسے ہی ہوں۔
بس ایک سجدہ، ایک آہ، ایک صدق دل کی دعا، اور ایک "یا رب!" کہہ دینا ہی تو کافی ہے۔ جب اُس کی ذات کُن کہہ دے، تو بےسہارا سہارا پا لیتے ہیں، گمشدہ راستے روشن ہو جاتے ہیں اور بچھڑی ہوئی خوشیاں لوٹ آتی ہیں۔
آئیے! آج ہم سب دعا کریں:
"اے اللہ! وہ تمام لوگ جو اپنے نصیب کے کھلنے کے لیے صرف تیری ایک کُن کے منتظر ہیں ان کے لیے وہ کُن فرما دے۔ اے اللہ! ہمارے دلوں کی چھپی ہوئی دعائیں اور تمنائیں پوری فرما دے اور اپنی رحمت کے دروازے ہم پر کھول دے۔
آمین ثم آمین
یا رب العالمین!"
اس ایک جملے میں اللہ کی شانِ تخلیق اور قدرت کی انتہا چھپی ہے۔جو دلوں کے حال جانتا ہے،جو بےقرار روحوں کی پکار سنتا ہے، جو بظاہر بند دروازے بھی کھول دیتا ہے، اور جو اسباب سے بےنیاز ہو کر، بلا سبب بھی عطا فرما دیتا ہے۔
آج جو لوگ اپنی تقدیر کے سنورنے کے منتظر ہیں، جو اپنی دعاؤں کی قبولیت کی راہ تکتے ہیں، انہیں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ دیر ہوسکتی ہے،اندھیرا بڑھ سکتا ہے، لیکن اس ربِ ذوالجلال کی رحمت سے نااُمیدی کفر ہے۔ یاد رکھیں کہ رب کی رحمت جب جوش میں آتی ہے تو پل بھر میں برسوں کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔دعاؤں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور قسمت کی لکیر بدل جاتی ہے۔
تحریر: حکیم الامت ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عنوان: اللہ کی "کُن" کا انتظار
دنیا کی اس فانی اور آزمائش بھری زندگی میں ہر انسان کسی نہ کسی خواہش، خواب یا ضرورت کے انتظار میں ہوتا ہے۔ کوئی روزگار کا طلبگار ہے، کوئی اولاد کا منتظر، کوئی عزت کا خواہاں ہے، اور کوئی دل کا سکون چاہتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی تقدیر کے دروازے کھلنے کی امید لیے بیٹھے ہیں، اور ایسے میں اکثر انسان تھک کر مایوس ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک مالک ہے — اللہ رب العزت — جس کے لیے کچھ بھی کرنا محض ایک کُن (ہو جا) کہنے کی دیر ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ"
(سورۃ یٰسین: 82)
"جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی کہتا ہے کہ 'ہو جا' تو وہ ہو جاتی ہے۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain