تحریر: حکیم الامت ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
عنوان: اللہ کی "کُن" کا انتظار
دنیا کی اس فانی اور آزمائش بھری زندگی میں ہر انسان کسی نہ کسی خواہش، خواب یا ضرورت کے انتظار میں ہوتا ہے۔ کوئی روزگار کا طلبگار ہے، کوئی اولاد کا منتظر، کوئی عزت کا خواہاں ہے، اور کوئی دل کا سکون چاہتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی تقدیر کے دروازے کھلنے کی امید لیے بیٹھے ہیں، اور ایسے میں اکثر انسان تھک کر مایوس ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اس پوری کائنات کا ایک مالک ہے — اللہ رب العزت — جس کے لیے کچھ بھی کرنا محض ایک کُن (ہو جا) کہنے کی دیر ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ"
(سورۃ یٰسین: 82)
"جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے صرف یہی کہتا ہے کہ 'ہو جا' تو وہ ہو جاتی ہے۔"
پھر میں اسکو کہتا ہوں
"یار،دیکھ ماں دنیا سے چلی گئیں مگر وہ اپنے بیٹے کو جہنم کی آگ میں جلتا تو نہیں دیکھنا چاہتیں، تُو چاہتا ہے نا کہ اماں خوش ہو، ان کے درجات بلند ہوں تو اللہ کے حضور ایک سجدہ ہی کر لے،ماں کے لیے دعا کر لے، دیکھ اللہ کی رحمت کیسے دل کو سکون دیتی ہے۔"
اور یہ بات بھی
"جو درباروں پہ مانگتا ہے وہ بھی اللہ سے مانگتا ہے، مگر براہِ راست اپنے رب سے مانگنے کا جو مزہ ہے، وہ اور کہیں نہیں۔ ماں کی یاد میں تو ماں کے رب سے بات کر، وہی تجھے چین دے گا۔"
نماز کی دعوت کے لیے یوں کہتا ہوں
"یار مولوی کی نماز نہیں، رب کی نماز پڑھنے آ،رب تو تیرا بھی ہے میرا بھی رب کا گھر تجھے بلاتا ہے وہاں جا کے اپنی ماں کی بخشش کی دعا کر کوئی زبردستی تھوڑی کر رہا۔"
میراایک بچپن کادوست ہےاسکی امی فوت ہوگئی تھیں اسکےبچپن میں اوروہ ان سےآج بھی بہت محبت کرتاہے۔
اکثرجب اسکوکوئی سوال بات سمجھ نہیں آتی تو وہ بہت روتاہےبچوں کیطرح انکویادکرکےکہ کاش اماں آپ زندہ ہوتیں تومجھےفلاں بات یا فلاں مسئلہ سمجھاتیں۔
بڑادکھ ہوتاہے اسکودیکھ کرکیوں کہ وہ شراب بھی پیتا ہے،چرس بھی پیتا ہے،گانےباجے کا شوق بھی رکھتاہےاورخودکومسلمان بھی کہتا ہے اور درباروں پہ جاکر کر مانگتابھی ہے یاعلی مددکہہ کرنعرے بھی لگاتا ہے اور کبھی کبھی تو کہتا ہے میں عمرہ کرنے جارہا ہوں کبھی کہتا ہے میں حج کرنے جارہا ہوں مگر جب اسکو بولو کہ چلو بھائی محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے تو کہتا ہے میں ان مولویوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا انکو تو قرآن ہی پڑھنا نہیں آتا نا انکو نماز پڑھنے آتی ہے۔
ایسےہی روزےبھی نہیں رکھتا۔پھرمیں اسےبہت سمجھتاہوں
نرمی اور حکمت سے دعوت دینا:
قرآن مجید کا حکم ہے:
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔"
— سورۃ النحل: 125
اس لیے جنہیں قرآن کی یہ آیات نہیں معلوم، انہیں طعنہ اور مار کے بجائے دلیل،محبت اور قرآن کی آیات سنا کر راہِ ہدایت کی طرف بلانا افضل ہے۔
نتیجہ:
شرک سب سے بڑا گناہ اور انسان کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خود بھی اس سے بچے اور دوسروں کو بھی حکمت اور محبت کے ساتھ سمجھائے۔
تحریر:
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
2. "جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔"
— سورۃ المائدہ: 72
3. "اور بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے وحی کی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، اور جو شرک کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔"
— سورۃ الزمر: 65
شرک کیوں گناہ کبیرہ ہے؟
1. اللہ کی حاکمیت کا انکار
2. توحید کی بنیاد کو توڑنا
3. کائنات کے مالک اور خالق کے سوا کسی اور کو الٰہی اختیار دینا
4. دین کے سب سے بڑے حکم کی مخالفت
شرک کی اقسام:
1. شرک فی العبادۃ (عبادت میں شرک)
2. شرک فی الدعاء (دعا میں شرک)
3. شرک فی الصفات (اللہ کی صفات میں شرک)
4. شرک فی الحکم (فیصلہ کرنے میں شرک)
شرک کی سزا:
اللہ کا غضب
جنت ہمیشہ کے لیے حرام
اعمال کا ضائع ہونا
دوزخ میں ہمیشہ کا عذاب
شرک — گناہ کبیرہ کیوں؟
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقدمہ:
اسلام دینِ توحید ہے۔ اس کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ معبود صرف اللہ ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے، نہ اس کے سوا کوئی مددگار، مشکل کشا یا حاجت روا۔ دینِ اسلام میں شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے بارے میں قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بار بار سخت وعید آئی ہے۔
شرک کی تعریف:
اللہ کے ساتھ کسی اور کو کسی بھی قسم میں شریک ٹھہرانا — چاہے عبادت میں، دعا میں، اختیار میں، مشکل کشائی میں، یا صفات میں — شرک کہلاتا ہے۔
قرآن مجید میں شرک کے خلاف واضح احکام:
1. "بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔"
— سورۃ النساء: 48
حوالہ:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"اللّٰہ ولیّ الذین آمنوا"
(اللہ ایمان والوں کا دوست اور مددگار ہے۔)
— سورۃ البقرہ: 257
اور فرمایا:
"لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَلِيًّا"
(کافروں کا کوئی مولا نہیں اور اللہ ہی مومنوں کے لیے کافی ہے۔)
— سورۃ النساء: 45
نوٹ:
اس وظیفہ کو روزانہ صبح و شام اور کسی بھی وقت جب دل گھبرائے یا شرک کا ماحول نظر آئے کثرت سے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہر شر سے محفوظ رکھے گا اور دل میں ایمان کی روشنی بھر دے گا۔
تحریر:
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
وظیفہ برائے توحید اور مشرکوں کے شر سے حفاظت
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ وہ کلمات ہیں جو مشرکوں کے شر، ان کے وسوسوں، ان کی سازشوں اور ان کی جلتی آگ کو بجھا دیتے ہیں اور مومن کے دل میں اللہ کی محبت اور توحید کی روشنی کو مزید روشن کر دیتے ہیں۔ ان کلمات کا ورد مومن کے دل کو سکون مدد اور اللہ کی نصرت کا ذریعہ بناتا ہے۔
وظیفہ:
روزانہ کثرت سے یہ پڑھیں:
"کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔"
"اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔"
"اے اللہ! کافروں کا کوئی مولا نہیں، جبکہ ہمارا، مسلمانوں کا مولا تو ہی ہے۔"
فائدہ:
مشرکین کے شر سے حفاظت
دل میں توحید کا نور
رزق و رحمت میں برکت
کافروں کی چالیں اور سازشیں ناکام
اللہ کی مدد اور نصرت حاصل ہونا
مشرکوں کو جلا کر بھسم کر دیتا ہے یہ وظیفہ
آپ بھی پڑھا کریں۔
کہہ دو کہ اللّٰہ ایک ہے۔
اے اللّٰہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اے اللّٰہ کافروں کا کوئی مولا نہیں جبکہ ہمارا مسلمانوں کا مولا تو ہے۔
(بیشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔)
— سورۃ المائدہ: 72
وسیلہ کا مسئلہ:
اگر کوئی اللہ سے دعا کرتے ہوئے کسی نیک بندے کی نیکی یا دعا کا واسطہ دے تو وہ جائز ہے بشرطیکہ عقیدہ یہ ہو کہ دینے والا صرف اللہ ہے، اور وسیلہ محض ذریعہ ہے۔
نتیجہ:
اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ مانگنے کا حق صرف اللہ کا ہے، وہی مشکل کشا ہے وہی حاجت روا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت ایمان کا حصہ ہے مگر انہیں اللہ کا درجہ دینا یا ان سے اس عقیدے کے ساتھ مانگنا کہ وہ خود عطا کرتے ہیں حرام اور شرک ہے۔
تحریر:
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
مزید فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ"
(بیشک اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا۔)
— سورۃ النساء: 48
مسئلہ:
بعض لوگ "علی اللہ ہے" کہتے ہیں یا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس عقیدے کے ساتھ مانگتے ہیں کہ وہ اپنی ذات سے عطا کرنے والے یا مشکل کشا ہیں یہ کھلا شرک ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:
"میں بندہ ہوں اللہ کا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں"
شرعی حکم:
ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص اگر توبہ نہ کرے تو دوزخ میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
جیسا کہ قرآنِ پاک میں آیا:
"إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ"
عنوان:
"علی اللہ ہے" کہنا اور علیؓ سے مانگنے کا عقیدہ — قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک وضاحتی بیان
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلام دینِ توحید ہے، اور اس کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر قائم ہے۔ یعنی عبادت، دعا، مشکل کشائی، حاجت روائی، سب کا اختیار صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کے پاس ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی نبی، ولی، فرشتے یا مخلوق کو اللہ کا درجہ دینا یا اس سے مانگنے کا عقیدہ رکھنا شرک اکبر ہے، جو انسان کو دینِ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
قرآنی حکم:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً"
(اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔)
— سورۃ الاعراف: 55
براہِ راست اللہ سے مدد مانگنی فرض اور عقیدہ توحید ہے۔
نیک بندوں سے دعا کروانا یا ان کے وسیلےسے دعا کرنا (یا ان کے صدقے میں مانگنا) شرط یہ کہ اصل مددگار اللہ ہی کو مانا جائے یہ جمہور اہلِ سنت کے نزدیک جائز ہے۔
لیکن یہ کہنا: "ہم اللہ کو چھوڑ کر صرف علیؑ سے مانگتے ہیں" یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
اور یہ کہنا: "مدد مولا علیؑ سے مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے" اگر اس کا مطلب علیؑ کو مستقل حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا ہے — تو یہ شرک اکبر کے زمرے میں آ سکتا ہے۔
اور اگر دعا میں اللہ کے وسیلے سے ان کی برکت مانگی جائے جیسے: "یا اللہ مولا علیؑ کے صدقے میں ہماری مدد فرما" یہ اہل سنت کے کئی اکابرین کے نزدیک مباح ہے، بشرطیکہ اصل مددگار اللہ ہی ہو۔
حکیم الامت
علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین کا حتمی فیصلہ:
اس تمام تحقیق اور مستند فتاویٰ کی روشنی میں میں حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین، اعلان کرتا ہوں کہ:
"براہِ راست 'یا علی مدد' کہنا اور عقیدہ رکھنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بذاتِ خود تصرف اور مدد کرنے پر قادر ہیں یہ صریح شرک اور موجبِ کفر ہے۔ایسے عقیدے والا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اگر کوئی بغیر عقیدہ تصرف کے محض رسم و رواج یا محبت میں کہے تب بھی ترک کرنا واجب اور اجتناب ضروری ہے تاکہ توحید کا عقیدہ خالص رہے۔"
واللہ اعلم بالصواب
مرتب:
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
(خادمِ دین و محققِ اسلام)
مفتی اعظم ہندمولانامفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگرکوئی شخص غیراللہ سےاس عقیدے سے مدد مانگے کہ وہ خود مختار ہے تو وہ شرکِ اکبر میں مبتلا ہے۔" (کفایت المفتی، ج1، ص148)
فتویٰ دارالعلوم دیوبند:
سوال: "یا علی مدد" کہنا کیسا ہے؟
جواب: "یہ کہنا ناجائز اور شرک کے قریب ہے۔مدد طلب کرنا صرف اللہ سے جائز ہے۔" (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج5، ص456)
فتویٰ جامعہ اشرفیہ لاہور:
"یا علی مدد کہنا عقیدۂ توحید کے خلاف ہے اور اگر عقیدہ تصرف کا ہو تو یہ کفر ہے۔" (فتاویٰ اشرفیہ، ج2، ص290)
غیر اللہ سےمددمانگنےکا حکم
ارشادِ باری تعالیٰ:
"وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لَا یَنفَعُكَ وَلَا یَضُرُّكَ" (سورة یونس: 106)
ترجمہ: اللہ کے سوا کسی کو نہ پکار، جو نہ تجھے نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔
اسی طرح حدیث مبارکہ:
"اذا سألت فاسأل اللہ و اذا استعنت فاستعن باللہ" (جامع ترمذی: 2516)
ترجمہ: جب سوال کرو تو اللہ سے کرو، اور جب مدد مانگو تو اللہ سے مانگو۔
وسیلہ کا شرعی جواز
قرآن:
"وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ" (سورة المائدہ: 35)
ترجمہ: اور اس (اللہ) تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو۔
اہم شرط: عقیدہ یہی ہو کہ دینے والا صرف اللہ ہے۔ وسیلہ محض دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔
"یا علی مدد" کہنےکاشرعی حکم
اگر "یا علی مدد" کہنےوالا یہ عقیدہ رکھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ براہِ راست مدد کرتے ہیں اورتصرف کے مختارہیں تو یہ صریح شرک ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کتابچہ:
"یا علی مدد کہنا — قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی حکم اور مستند فتاویٰ"
مرتب: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
مقدمہ
الحمدللہ! ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں دینِ اسلام کی نعمت عطا فرمائی اور قرآن و سنت کی روشنی میں حق و باطل کے درمیان تمیز کی توفیق دی۔ یہ کتابچہ ایک اہم اور حساس مسئلے "یا علی مدد" کہنے کے متعلق ترتیب دیا جا رہا ہے، تاکہ عوام الناس حق بات سے واقف ہوں اور کسی گمراہی کا شکار نہ ہوں۔
اسلام کا تصورِ توحید
اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی عقیدہ توحید ہے:
"ایاک نعبد و ایاک نستعین" (سورة الفاتحہ: 5)
ترجمہ: ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
خلاصہ:
متعہ کی حرمت پر قرآن، احادیث، اجماعِ امت اور فقہائے کرام سب کا اتفاق ہے۔ اسے حلال کہنے والا گمراہ اور دین سے خارج ہے۔ امت مسلمہ پر لازم ہے کہ ایسے فتنوں سے اپنے ایمان، عقیدے اور معاشرت کو محفوظ رکھے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور فتنوں سے حفاظت عطا فرمائے۔ آمین۔
2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
> "دو متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، میں ان دونوں کو ممنوع قرار دیتا ہوں اور ان پر سزا مقرر کرتا ہوں۔"
(مصنف ابن ابی شیبہ: 14302)
3. اجماعِ امت:
صحابہ، تابعین، ائمہ اربعہ اور تمام محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نکاحِ متعہ حرام اور منسوخ ہے۔
متعہ کو حلال کہنے والے کے متعلق شرعی حکم (فتویٰ):
ائمہ اہلِ سنت والجماعت کا متفقہ فتویٰ ہے کہ:
> "جو شخص نکاحِ متعہ کو حلال سمجھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے، وہ اجماعِ امت اور صریح احادیث کا منکر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔"
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> "متعہ کو حلال سمجھنے والا کافر ہے کیونکہ وہ اجماع کا انکار کر رہا ہے۔"
(المغنی، جلد 7، ص 571)
جامع نوٹ: نکاحِ متعہ پر شرعی فیصلہ
تحریر: حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اویس خان ترین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلام نے نکاح کو مستقل،باعزت اور شرعی ضابطوں کے مطابق تعلق کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ابتدائے اسلام میں بعض وقتی مجبوریوں کے باعث عارضی طور پر نکاحِ متعہ کی اجازت دی گئی تھی،مگر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد فرما دی۔
نکاحِ متعہ ایسا وقتی معاہدہ ہے جس میں مخصوص مدت کے عوض مرد و عورت جنسی تعلق قائم کرتے ہیں، اور مدت پوری ہوتے ہی نکاح از خود ختم ہو جاتا ہے۔
قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی روشنی میں حکم
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
> "خیبر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت حرام فرما دیا۔"
(صحیح مسلم: 1407)
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain