آج کا لکھا تازہ کلام حاضر خدمت کرتا ہوں آسمان سے گریں بوندیں زمین کو بڑا سکون دیتی ہیں تجھ سے ہوئی کچھ پیار کی باتیں بڑی عمدہ خوشبو دیتی ہیں جب تجھ سے مخاطب ہوتا ہوں تو سارے تخاطب بھول جاتا ہوں عشق کی بازی بھلا کوئی ہار سکا ہے میں بھی تو اسی امید پے جیتا ہوں تیرا دھیمہ دھیمہ انداز بڑا دلکش و حسین ہے تیرے اس دلنشین انداز کو دیکھے جیتا ہوں تجھ سے کبھی ہو گی میری ملاقات بھی شاید اسی لیے شہزاد میں صبر کے یہ زہریلے گھونٹ بھی پیتا ہوں
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا میں تنہا ساون بِتا چکا ہوں میں سارے ارمان جلا چکا ہوں جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ہوں کہیں ملے تو اسے یہ کہنا بغیر اسکے اداس ہوں میں بدلتی رت کا قیاس ہوں میں بجھا دے اپنی محبتوں سے تو سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں کہیں ملے تو اسے یہ کہنا وہ جذبے میرے کچل گیا ہے وفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے نہ بدلے موسم بھی اتنی جلدی وہ جتنی جلدی بدل گیا ہے