ان آفتوں نے گھیر کے رکھا ہے اس قدر جیسے جہاں میں کوئی بھی مشکل کشا نہ ہو ہر لمحہ خوف مجھ کو یہی کھا رہا ہے اب وہ اور کچھ مرے سوا بھی سوچتا نہ ہو اب تک ہمارے دل کو یہی وہم ہے کہ وہ ویران راستوں پہ ہمیں ڈھونڈتا نہ ہو مت سوچنا کہ خوف زدہ راستوں سے ہوں "گمراہ اس لیے ہوں کہ رہبر خفا نہ ہو" ساحل غموں کی دھوپ نے جھلسا دیا بدن کوئی جہاں میں مجھ سا کبھی بھی جیا نہ ہو
لب پر ہمارے اس کے سوا التجا نہ ہو اس شہرِ عاشقی میں کوئی آپ سا نہ ہو وہ آ گیا ہے لوٹ کے تو ہے دعا مری روٹھے ہزار بار مگر اب جدا نہ ہو اے کاش اس کو چھوڑ کے جانے جو میں لگوں وہ ایسے بڑھ کے روک لے کہ راستہ نہ ہو یا رب مجھے عطا ہو کبھی ایسا کوئی غم جس کی زمانے بھر میں کبھی بھی دوا نہ ہو آ بیٹھ میرے پاس مرے ہمنوا تجھے افسانہ وہ سناؤں جو تو نے سنا نہ ہو مجرم اگر میں ہوں تو مجھے دو سزا مگر ایسا دکھاؤ کوئی کہ جس سے خطا نہ ہو
آج کا لکھا تازہ کلام آپ احباب کی نظر تیرے ملنے کی آس لگائے بیٹھا ہوں سوا تیرے سب کچھ بھلائے بیٹھا ہوں پھول سے خوشبو چرائے بیٹھا ہوں بھنورے کا من بھی جلائے بیٹھا ہوں شمع کو دن میں جلائے بیٹھا ہوں سورج کو آنکھیں دیکھائے بیٹھا ہوں تیری آنکھوں کی چمک سمائے بیٹھا ہوں چاند کی چاندنی کو ترسائے بیٹھا ہوں تجھ سے من کی جوت جگائے بیٹھا ہوں من اپنے میں تیرا عکس جمال سجائے بیٹھا ہوں
حسب وعدہ وہ آئے ملاقات کرنے لیکن لہجہ کچھ بدلا جناب کا تھا پہلے آتے تھے کھلے کھلائے ایسے جیسے کھلا کوئی پھول گلاب کا تھا میں نے پوچھا کہ سفر تو ٹھیک گزرا؟ بولے اف یہ سفر عذاب کا تھا بڑے منتظر تھے وہ خیام اور ایک نیا اضافہ نقاب کا تھا میں نے پوچھا نقاب کیوں پہن آئے ہو؟ وہ بولے تقاضا حالات کا تھا کھڑے غیر تھے راہوں میں آج میرے قدم قدم پر مسکن خطرات کا تھا نہ نقاب ہوتا ہوتی رسوائی تماری یہ احساس پاکیزہ خیالات کا تھا مرتے کیا نہ کرتے خیام تجھے وعدہ جو کیا ملاقات کا تھا تحریر و ترتیب ۔خیام نقاش انتخاب ۔ شام ڈھلے ۔دل جلے