ابھی لکھا اور آپ احباب کی نظر کرتا ہوں اپنی حاجات و مناجات میں کبھی دل سے نہ رہو غافل تسبیح کے دانوں سے نہ کھیلو مثل شمع پر جلتے ہوئے پروانے بنو اغیار کے خوف کو نہ دل میں بٹھاؤ اپنے نظر اپنی رکھو رب پہ اور تغافل سے بچو شور دریا سے نہ کبھی گبھراو اپنے چراغوں کو تیز ہواؤں کے تھپیڑوں سے بچاؤ نگاہ اپنی میں عکس جمال مصطفیٰ کو سجاؤ زبان اپنی پہ نغمے توحید کے گنگناؤ چلو ہمیشہ سے سر اپنے کو اٹھا کر یہ سر کبھی غیر کے آگے نہ جھکاؤ اپنا اپنے اصولوں پر کبھی نہ کرو سودے بازی جان رب کی امانت ہے بس یہ سبق نہ کبھی بھلاؤ
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں!! نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں!! ہر طرف دیوارودر،ا ور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں!! جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا کاٹتا ہوں زندگی بھر،میں نے جو بویا نہیں!! جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی عمران غم سے پتّھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں!!