کب غم کہے سنے سے، کسی بات سے گیا میں رات تھا، اندھیرا کبھی رات سے گیا پہلے پہل تھا اس کا محبت سے دل بھرا پھر رفتہ رفتہ ساری شکایات سے گیا جانے یہ کیسے فاصلے آئے ہیں درمیاں مجھ میں جو بس رہا تھا ملاقات سے گیا کچھ اس لئے بھی آنکھ میں رنگینیاں ہیں کم جو نقش روشنی تھا خیالات سے گیا اس حادثے میں حادثہ در اصل یہ ہؤا جو دل زباں دراز تھا ہر بات سے گیا ابرک نہ رنج کر یہ یہاں کا رواج ہے بچ کر نہ کوئی زیست کی اس گھات سے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک