کچھ دیپ محبت کے جلانے کے لیے آ آ پھر سے کوئی شام سجانے کے لیے آ♥ بے رنگ سا امبر ہے کئی بیتے ہیں ساون پھر کوئی دھنک مجھ کو دِکھانے کے لیے آ♥ میں دشت کی مٹی ہوں تو پربت کا ہے جھرنا آ میری کبھی پیاس بجھانے کے لیے آ♥ فرقت کا یہ موسم مرا دم گھونٹ رہا ہے سانسوں سے مری سانس ملانے کے لیے آ♥ جاتے ہوئے کہہ جانا کہ ہم پھر سے ملیں گے جھوٹی ہی سہی آس لگانے کے لیے آ♥ مایوس سا پنچھی ہے نشیمن میں جو بیٹھا تو اس کو فضاؤں میں اڑانے کے لیے آ♥ میں ایک زمانے سے ہوں بیگانہ سا خود سے تو مجھ کو مرا حال سنانے کے لیے آ♥