سوکھے ہونٹوں پہ ہی ہوتی ہیں میٹھی باتیں
پیاس بجھ جائے تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں
ہم اپنے درد کا شکوہ ان سے کیسے کریں فراز
محبت تو ہم نے کی ہے وہ تو بے قصور ہے
یوں نہ جھانکو غریب کے دل میں
حسرتیں بے لباس رہتی ہیں
سب کچھ مل جاتا ہے اس دنیا میں فراز
فقط وہ شخص نہیں ملتا جس سے محبت ہو
قابل دید آنکھیں اور ان آنکھوں سے
خود ہی پامال ہوئے خود ہی تماشا دیکھا
رہنے دے یہ کتاب تیرے کام کی نہیں
اس میں لکھے ہوئے ہیں وفاؤں کے تذکرے
تو مرد مومن ہے اپنی منزل کو آسمانوں پہ دیکھ ناداں
کہ راہ ظلمت میں ساتھ دے گا کوئی چراغ علیل کب تک
محبت کیا ہے دو لفظوں میں بتا تا ہوں
تیرا مجبو ر کرنا اور میرا مجبور ہو جانا۔
تجھے دیکھے گے ستارے تو ذیا مانگے گے
اپنے کندھے سے دوپٹا نہ سرکنے دینا
ورنہ بوڑھے بھی جوانی کی دعا مانگے گے
وفاؤں کے کناروں کی امید پر نہ بیٹھ جانا
بے وفائی کا دریا جب بہتا ہے تو کنارے والے بھی ڈوب جاتے ہیں.
ناراض ہمیشہ خوشیاں ہی ہوتی ہیں
غٙموں کے اِتنے نٙخرے نہیں ہوتے۔
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا
وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا
واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا
پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا
لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا
پھر بے نمو زمین تھی اور خشک تھے شجر
بے ابر آسماں کا چلن کامیاب تھا
اک بے قیاس بات سے منسوب ہو گیا
پھیلا ہوا حروف میں جو اضطراب تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
خود آفتاب مری راہ کا چراغ بنے
مگر یہ بات مرے چاند کو گوارا نہیں
جو اس میں اتری تو طوفان ہی ملیں گے مجھے
میں جانتی ہوں کہ وہ موج ہے کنارا نہیں
عجب فضا ہے کہ رنگ نمود صبح بھی ہے
سیاہ رات نے بھی پیرہن اتارا نہیں
وجود جس کو کسی معتبر شجر نے دیا
ہوا کی زد میں بھی تنکا وہ بے سہارا نہیں
جلے گا خود بھی سحر تک مجھے بھی لو دے گا
چراغ شام کوئی بخت کا ستارا نہیں
کوئی پوچھے مرے مہتاب سے میرے ستاروں سے
چھلکتا کیوں نہیں سیلاب میں پانی کناروں سے
مکمل ہو تو سچائی کہاں تقسیم ہوتی ہے
یہ کہنا ہے محبت کے وفا کے حصہ داروں سے
ٹھہر جائے در و دیوار پر جب تیسرا موسم
نہیں کچھ فرق پڑتا پھر خزاؤں سے بہاروں سے
بگولے آگ کے رقصاں رہے تا دیر ساحل پر
سمندر کا سمندر چھپ گیا اڑتے شراروں سے
مری ہر بات پس منظر سے کیوں منسوب ہوتی ہے
مجھے آواز سی آتی ہے کیوں اجڑے دیاروں سے
جہاں تا حد بینائی مسافر ہی مسافر ہوں
نشاں قدموں کے مٹ جاتے ہیں ایسی رہ گزاروں سے
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی
نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص
خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی
ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں
وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی
آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف
اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی
جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے
خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی
یہ ہوا تو کہ ہر اک شے کی کشش ماند پڑی
مگر اس موڑ پہ آنے میں بہت دیر لگی
بس ایک بات کی اس کو خبر ضروری ہے
کہ وہ ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے
دلوں میں درد کی دولت بچا بچا کے رکھو
یہ وہ متاع ہے جو عمر بھر ضروری ہے
نہیں ضرور کہ مقدور ہو تو ساتھ رکھیں
کبھی کبھار مگر نوحہ گر ضروری ہے
کبھی تو کھیل پرندے بھی ہار جاتے ہیں
ہوا کہیں کی بھی ہو مستقر ضروری ہے
یہ کیا ضرور کہ مست اپنے آپ ہی میں رہیں
ادھر ادھر کی بھی کچھ کچھ خبر ضروری ہے
مفر نہیں غم دنیا سے آفتاب حسین
بہت کٹھن ہے یہ منزل مگر ضروری ہے
کون کہتا ہے زمانے کے لئے زندہ ہوں
میں تو بس آپ کو پانے کے لئے زندہ ہوں
آپ فرمائیں ستم شوق سے پھر بھی میں تو
آپ کے ناز اٹھانے کے لئے زندہ ہوں
کون اس دور میں ہوتا ہے کسی کا ساتھی
زندگی تجھ کو نبھانے کے لئے زندہ ہوں
جو ترے پیار کا صدیوں سے ہے واجب مجھ پر
ہاں وہی قرض چکانے کے لئے زندہ ہوں
حاکم وقت نے جو آگ لگائی ہے یہاں
میں وہی آگ بجھانے کے لئے زندہ ہوں
جو ترقی پہ نئے لوگوں کی جلتے ہیں انا
میں انہیں ہوش میں لانے کے لئے زندہ ہوں
Alone foji
پہلے جو تھی دلوں میں محبت نہیں رہی
افسوس اب جہاں میں شرافت نہیں رہی
اک مہرباں کی چشم کرم مجھ پہ ہو گئی
دنیا ترے کرم کی ضرورت نہیں رہی
تم نے نگاہ پھیری تو احساس یہ ہوا
دنیا میں کچھ خلوص کی قیمت نہیں رہی
یہ اور بات میں نے ہی تجھ کو بھلا دیا
ہم راہ میرے کب تری رحمت نہیں رہی
کیوں آپ کائنات سے بیزار ہو گئے
کیا دل میں روشنیٔ محبت نہیں رہی
منزل سے آشنا وہ کبھی ہو نہیں سکا
حاصل جسے کسی کی قیادت نہیں رہی
میں نے کسی کا دل نہیں توڑا کبھی انا
واللہ مجھ میں یہ کبھی عادت نہیں رہی
آ کہ ان بد گمانیوں کی قسم
بھول جائیں غلط سلط باتیں
آ کسی دن کے انتظار میں دوست
کاٹ دیں جاگ جاگ کر راتیں
میری تصویر کو تم پیار تو کر سکتی ہو میری تصویر تمھیں پیار نہیں کر سکتی فرط جذبات سے تم چوم تو سکتی ہو اسے یہ مگر پیار کا اظہار نہیں کر سکتی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain