میں گذرتا ہو تکلیفوں کے شہر میں میرے خاب ابھی ادھورے ہیں ممکن نہیں میں ٹھہر جائو میں تو ابھی ابھی سنبھلنے لگا ہو اب بہت کچھ کرنا ابھی باکی ہے اب اک داستاں لکھنا ابھی باکی ہے کے لکھدوں کچھ اس قدر"محبت کے مٹا سکے نہ کوئی جس پہلوؤں میں ہو جائوں وہاں آسکے نہ کئی
میں تج کو دیکھوں تو اک خاب لکھوں اس خاب تج کو بے حساب لکھوں میں سوچوں تو اک تابیر لکھوں تو مج سے بچھڑے ییہے بار بار لکھوں "محبت تو مجھے سے ہم کلام ہو پھر بھی نفرت ہو تو مج سے ملنے کی دعا کرے ییہے میں ہر بار لکھوں