لڑکا بن کر لڑکیوں کو دھوکا دینے والی لڑکی سلاخوں کے پیچھے کر دی گئی۔تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی عدالت نے 21 سالہ خاتون کو لڑکا بن کر لڑکیوں کو دھوکا دینے پر 8 سال جیل کی سزا سنادی۔21 سالہ خاتون کو کم سے کم 50 کم عمر لڑکیوں کو پھنسانے اور انہیں جنسی طور پر متحرک کرنے کے الزام میں سزا سنادی۔گیما واٹس پر الزام تھا کہ انہوں نے انسٹاگرام سمیت دیگر سوشل ایپلی کیشنز پر جھوٹا اکاؤنٹ بنایا،16 سالہ لڑکے ’جیک ویٹن‘ کے نام سے اکاؤنٹ میں اپنی اصلی تصاویر استعمال کیں
صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں گھریلو جھگڑے نے دو بھائیوں کی زندگیاں نگل لیں۔ تفصیلات کے مطابق فیصل آباد میں تھانہ مدینہ ٹاؤن کے علاقے میں گھریلو جھگڑے پر گولیاں چل گئیں، جس کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جبکہ دوسرے شخص کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا،جہاں وہ جانبر نہ ہوسکا اور دوران علاج دم توڑ گیا۔ پولیس کے مطابق مرنے والے دونوں سگے بھائی تھے، جن کی شناخت پچپن سالہ رشید اور پچاس سالہ نوید کے نام سے ہوئی ہے۔
الزام 1:- مشرف نے لال مسجد میں آپریشن کر کے بے گناہ لوگوں کو مارا۔ استغفراللہ اتنا بڑا الزام۔ کوئی بھی الزام لگانے سے پہلے تھوڑا تحقیق بھی کر لیا کرو۔لال مسجد میں اسلام آباد کو اڑانے کا بندوبست تقریباً مکمل ہو چکا تھا ، انٹیلی جنس اداروں نے جب مشرف کو آگاہ کیا کہ لال مسجد میں اسلحہ اکٹھا کیا جا رہا ہے قرآنی تعلیمات کی آڑ میں بچوں کی غلط ذہن سازی کی جا رہی ہے اور عنقریب بہت بڑا حملہ ہونے والا ہے اسلام آباد جیسے حساس شہر پر۔تو حکومت وقت نے مدرسہ کی چیکنگ کرنے اور تلاشی لینے کا فیصلہ کیا جب بھی تلاشی کے لیے رینجرز کو بھیجا جاتا آگے سے شدید گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا، کئی علماء کو لال مسجد نقاب والی سرکار کے پاس بھیجا گیا کہ مدرسہ کی تلاشی لینے دیں جائے لیکن یکسر انکار کیا گیا، بالآخر آپریشن کرنا حکومت کی مجبوری بن گئی
پاکستانی ڈرامہ میرے پاس تم ہو کی آخری قسط سنیما گھر کی زینت بنے گی۔تفصیلات کے مطابق ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کی آخری ڈبل قسط ملک بھر کے بڑے سنیماؤں میں دکھائی جائے گی۔یاد رہے مقبول ترین اور سب کا پسندیدہ ڈرامہ میرے پاس تم ہو اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کی آخری قسط دیکھنے کے لیے سب بے تاب ہیں۔خیال رہے کہ ڈرامے کی آخری قسط کو گرینڈ فنالے طور پر پیش کیا جائے گا، آخری قسط کا دورانیہ دو گھنٹے ہے.ڈرامہ میں اہم کردار ہمایوں سعید، عائزہ خان، عدنان صدیقی نے ادا کیا جسے لوگوں نے بہت مسند کیا اور ان کی بہترین اداکاری کو سراہا بھی ہے۔ڈرامے کے مصنف خلیل الرحمان قمر نے آخری قسط سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدا گواہ ہے کہ آخری سین لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور میں رو رہا تھا
ز 7‘ آپریٹنگ سسٹم کی اپڈیٹ کی فراہمی ختم کردی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق امریکی ملٹی نیشنل کمپنی ’مائیکرو سافٹ‘ نے دنیا بھر کے کمپیوٹرز پر موجود ’ونڈوز 7‘ آپریٹنگ سسٹم کی اپڈیٹ کی فراہمی ختم کردی۔مائیکرو سافٹ کی جانب سے ’ونڈوز 7‘ کی اپڈیٹس کی فراہمی بند کیے جانے کے بعد دنیا بھر کے کروڑوں کمپیوٹرز 14 جنوری 2020 سے ’ونڈوز 7‘ کی کسی بھی اپڈیٹ سے محروم ہوگئے ہیں۔یاد رہے کہ مائیکرو سافٹ کی جانب سے ایک سال قبل اعلان کر دیا گیا تھا کہ کمپنی جنوری 2020 سے ’ونڈوز 7‘ کی اپڈیٹ کی فراہمی بند کر دے گی۔واٹس ایپ کا آئندہ ماہ سے ہزاروں فونز پر سروس بند کرنے کا فیصلہ
ڈاکٹر باہر آئے بہت خوش تھے کہنے لگے مبارک ہو مسٹر شاید آپ کی بیوی پہلے دیکھ نہیں سکتی تھی آپریشن کے دوران ہم۔نے دیکھا کے لینز ٹھیک نہیں تھی چھوٹے سے آپریشن سے ٹھیک کر دیئے ہیں شاید کے اب دیکھنے لگے ہوش آیا تو دو دن بعد آنکھوں سے پٹی اتاری تو اللہ نے اپنا معجزہ دکھایا اور میرب کو نظر آنے لگا علی نے میرب کو سینے سے لگا لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا ہمسفر وہی ہوتا ہے جو ہر حالات میں اپنے جیون ساتھی کا وفادار رہے ورنہ ہمسفر تو جانور بھی ایک دوسرے کے ہوتے ہیں از قلم ۔۔۔شہزادہ فارس The End
ڈاکٹرز نے کہا دماغ میں چوٹ لگی ہے کچھ کہہ نہیں سکتے دعا کریں بس آپریشن کرنا ہو گا ایمرجنسی علی کی آنکھوں میں آنسو تھے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ڈاکٹر صاحب پلیز میری میرب کو بچا لیں ڈاکٹر نے حوصلہ دیا اور چلا گیا علی بے بس بیٹھا میرب کی تصویر نکالی چوم کر کہنے لگا میرب مجھے دغا نہ دینا مجھ سے بے وفائی نہ کرنا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی دیکھو میرب کل ہم اپنا نیا گھر لے رہے ہیں میرب تم نے کہا تھا کبھی میرا ساتھ نہین چھوڑو گی آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگا یا اللہ مجھے میری میرب واپس دے دو میری میرب مجھ سے نہ لینا اس کی محبت کی تڑپ پہ شاید خدا کو بھی ترس آ گیا تھا 4 گھنٹے کے آپریشن کے بعد
میرب علی کے سینے پہ سر رکھ کر سوتی تھی ایک عادت سی ہوگئی تھی وہ علی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کہا کرتی تھی علی سنا ہے قیامت کے دن اللہ مجھے میری آنکھیں واپس دے گا لیکن اس دن کے دعا کرتی ہوں کے خدا و رسول کے بعد سب سے پہلے میں آپ کو دیکھوں میری آنکھیں سب سے پہلے آپ کو دیکھیں علی مسکرا دیتا تھا پاگل سی ہو تم پتہ نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہو ایک دن علی گھر پہ نہیں تھا میرب چھت پہ تھی بارش ہو رہی تھی بہت زور سے میرب شاید چھت سے کپڑے اتارنے گئی تھی نصیب نے عجیب کھیل کھیلنا تھا درد شاید ابھی باقی تھے میرب چھت پہ تھی کے پاوں پھسلا اور چھت سے گر گئے بے ہوش ہو گئے محلے والوں نے ہسپتال پہنچایا علی کو کال کی علی پاگل سا ہو گیا سب کر وہ ہسپتال پہنچا
علی میرب کو آہستہ آہستہ گھر کی ہر چیز کہاں رکھی ہے سب بتاتا میرب بھی سمجھنے لگ گئی تھی علی کا ایک گھنٹہ بھی میرب سے بات کئے بنا نہیں گزرتا تھا وہ کال کرتا حال پوچھتا پیار بھری باتیں کرتا 1 سال ہو گیا تھا شادی کو میرب بہت خوش رہنے لگی تھی اب میرب گھر کے کام بھی کرتی تھی مدد کرواتی تھی علی کی میرب خدا کا شکر ادا کرتی تھی کیا خدا تم بہتر جانتے ہو ہم کو توں دے تو ناشکرےہو جاتے ہیں چھین لے تو شکوے کرتے ہیں لیکن توں بہتر جاننے والا ہے کبھی چپکے سے آ کر سینے لگا لینا تو کبھی خاموشی میں ڈرا دینا دونوں میں بہت تھا
باتیں کرتے ہوئے سو گیا ولیمہ رسم مکمل ہوئی سب رشتہ دار باتیں کر رہے تھے علی پاگل ہے زیادہ دن یہ شادی نہیں رہے گی دیکھنا 2 مہنے بعد ہی طلاق ہو جائے گی کچھ لڑکیاں علی کو یہ کہتے بھی سنی گئی کے اگر علی انتظار کرتا میں شادی کروا لیتی علی سے لیکن علی کو بس میرب کی محبت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا علی بے اٹھتا ناشتہ بناتا اپنے لیئے میرب کے لیئے پھر پھول سی خوشبو سے جگاتامیرب کو نماز فجر ادا کرتے پھر ناشتہ ایک ساتھ کرتے
علی نے میرب کا ہاتھ اپنی آنکھوں کو لگایا اور کہنے لگا آج سے یہ آنکھیں تمہاری ہیں اٹھو اب چلو میرے ساتھ میرب نے دھیمی سی آواز میں پوچھا کہاں جانا ہے علی نے کہا چلو وضو کریں پہلے میرے ساتھ شکرانےکے نوافل ادا کریں علی نے اپنے ہاتھ اس اس کے ہاتھ پاوں دھوئے وضو کروایا اور شکرانے کے نوافل ادا کیئے میرب کو یقین نہیں آ رہا تھا کے خدا کر کیا رہا ہے علی نے نماز کے بعد میرب کی آنکھوں کو چوما اور کہا آج سے تم میری آنکھوں سے دیکھا کرو گی کبھی اس کے سر کے بال سنوارتا تو کبھی اس کے ہاتھوں کو چومتا
علی کی ماں ے کہا اللہ نے اگر ان کا نصیب ایسا لکھا ہے تو ہم۔کیا کر سکتے ہیں خیر شادی ہو گئی میرب بہت ڈری ہوئی تھی اس کے دل میں ہزاروں سوال جنم لے رہے تھے وہ سوچ رہی تھی یا خدا پہلے جینے کی خواہش تھی تم نے سب کچھ ختم کر دیا اب مرنے کی خواہش تھی تو زندگی کی طرف لے آیئے ہو کیسے امتحاں تمہارے یا خدا علی کھانستے ہوئے کمرے میں آیا میرب خاموش بیٹھی رہی علی پاس ایا ہاتھ پکڑا میرب ڈر سی گئی علی نے کہا میرب ڈر لگ رہا ہے میرب خاموش رہی
اس کے باپ سے بات کی تو باپ نے سمجھایا بیٹا وہ تمہارا خیال نہیں رکھ پائے گی وہ تمہارا سہارا نہیں بنے گی بلکہ تمہاری زندگی خراب کر دے گی تمہارا جنوں چند دنوں کا ہے بس حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کیوں کسی کی بیٹی کو برباد کرو گے ساتھ خود کو بھی لیکن علی کہاں کسی کی کوئی بات سننے والا تھا علی اپنا کوئی چھوٹا سا بزنس کرتا تھا گھر والوں نے اس کا پاگل پن دیکھا اور مان گئے شادی کے لیئے میرب کی ماں سے بات کی تو میرب کی ماں نے کہا لیکن آپ کا بیٹا سب جانتے ہوئے بھی
لیکن شاید کے علی ہار بیٹھا تھا خود کو میرب پہ گھر گیا شادی تقریب ختم ہوئی تو علی میرب کو دیکھنے کے لیئے کسی نہ کسی بہانے آ جایا کرتا تھا علی نے اپنی ماں سے بات کی کے مجھے میرب سے شادی کرنی ہے علی کی ماں نے غصے میں کہا بکواس نہ کرو شادی کرنی ہے جا دفعہ ہو جا یہاں سے علی بضد رہا دن گزرتے گئے علی کی تڑپ بڑھتی گئی علی بس کیسے بھی اب میرب سے شادی کرنا چاہتا تھا علی نے کہا میں زہر پی لوں گا اگر میری شادی نہ کروائی تو ماں نے کہا کیسا بے شرم لڑکا یے
اس نے میرب سے کہا پلیز آپ مجھے پانی لا دین گی میرب نے آواز دی ماں یہ پانی مانگ رہے ہیں پہلے تو علی نے سوچا بڑی کوئی بدتمیز لڑکی ماں کو آواز دے رہی خود پانی لینے نہیں گئی جب ماں پانی لے کر یہ تو بتایا سوری بیٹا یہ میرب ہے میری بیٹی اس کو نظر نہیں آتا ۔۔۔ علی نے کہا نظر نہیں آتا مطلب میرب کی ماں نے کہا بیٹا اندھی ہے یہ دیکھ نہیں سکتی علی کو یقین نہیں آرہا تھا اتنی خوبصورت کے جیسے کوئی سمندر کی گہرائی میں چمکتے ہوئے موتی ہوں
وہ لڑکا بولا وہ جی میں ساتھ والے گھر مہمان آیا ہوں آپ کے گھر سے کچھ سامان لانے کے لیئے بیجھا ہے مجھ جو انہوں نے شاید آپ کئ امی کو دیا تھا رکھنے کے لئے لڑکا تو میرب کئ طرف دیکھتا رہا دل میں خیال آیا کتنی خوبصورت لڑکی ہے اللہ نے کتنا حسن دیا ہے اس کو میرب خاموش ہو گئ اور ماما کو آواز دی ماما جان باہر کوئی آیا ہے ماں نے دیکھا تو پہچان لیا ارے یہ تو نادیہ کا بیٹا ہے آ جاو بیٹا میں لے کر آتی ہو سامان لیکن علی تو میرب کو دیکھتے جا رہا تھا وہ شاید اس کی خوبصورتی میں کہیں ڈوب چکا تھا لیکن انجان تھا اس حقیقت سے جو اس پہ قیامت گرانے والی تھی
میرب کی خوشیاں بس اتنی سی تھیں کے کوئی آ کر حال پوچھ لیتا تو میرب خوش ہو جاتی وہ جیسے زندگی کے دن گزار رہی تھی اسے دنیا میں کسی سے اب کوئی واسطہ نہیں تھا کسی نہ کسی سے دل کی بات کہہ سکتی تھی نہ کوئی سننے والا تھا ساتھ والے گھر میں شادی تھی میرب بس ڈھول کی تاپ کو سن کر ان کے گھر ہونے والی خوشیاں محسوس کر رہی تھی اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی ماں نے کہا جاو دیکھو بیٹا تمہارا باپ آیا ہو گا کتنی بار کہا ہے ٹائم پہ گھر آ جایا کر میرب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دروازے کے پاس گئی دروازہ کھولا کے ایک لڑکے نے سلام کہا میرب نے گھبرا کر وا علیکم السلام کہا میرب نے پوچھا آپ کون
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain