Damadam.pk
Malik-Danish786's posts | Damadam

Malik-Danish786's posts:

Malik-Danish786
 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چوبیس آدمی ایک مقام پر جنگل میں درخت کاٹ رہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی. وہ نزدیک ہی ایک بڑے کمرے میں بارش کے رکنے کا انتظار کرنے لگے .. اتنے میں بجلی چمکنے لگی اور گھن گرج سے کمرے کی چھت پر سے ہو کر واپس چلی جاتی. اسطرح آسمانی بجلی کا سلسلہ تیز ہوگیا . سب نے مشورہ کیا کہ ہوسکتا ہے ہم میں سے کسی ایک آدمی پر بجلی پڑنی ہو . اسطرح کرتے ہیں کہ ہر آدمی ایک ایک کر کے کمرے سے باہر جائے جس آدمی پر بجلی گرنی ہوگی گر جائے گی اور باقی بچ جائیں گے.
اس طرح تمام آدمی باری باری کر کے باہر گئے اور بچ کر واپس آگئے. آخر میں 24 واں آدمی رہ گیا ...

Malik-Danish786
 

ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﺮ ﺑﺮﮮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﻼ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻥ
ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺑﺎ ﺑﮍﮮ ﺁﺭﺍﻡ ﻭﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﻝ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ
ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ٬
ﻣﻈﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﮦ ﺳﮯ ﮈﺭﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮩﺖ
ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ.
.
.
.a1.a2 the End __
Follow Me plz

Malik-Danish786
 

ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ، ﻟﺸﮑﺮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ
ﻗﺎﺑﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﺭﮨﺎ، ﯾﮩﺎﮞ
ﺗﮏ ﮐﮧ ﮨﻼﮐﻮ ﮐﺎ ﺳﺮ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﭩﺦ ﭘﭩﺦ ﮐﺮ ﺍﺳﻘﺪﺭ ﻟﮩﻮﻟﮩﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺭﻭﺡ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﺗﮑﺒﺮ ﺑﮭﺮﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﮩﻨﻢ ﺭﺳﯿﺪ
ﮨﻮﮔﺌﯽ ،
ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﻗﺎﺑﻮ

Malik-Danish786
 

ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ،
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮑﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﺯ
ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﭼﺎﺑﮏ ﺩﺳﺖ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺟﻨﮕﺠﻮ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻻﮎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ
ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮔﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ
ﭘﮧ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮑﮍ ﻟﮯ، ﺍﺳﯽ ﮐﻮﺷﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﭘﺎﻭﮞ ﺭﮐﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺁﭘﮍﺍ، ﺟﺒﮑﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭘﺎﺅﮞ
ﺭﮐﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ، ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ

Malik-Danish786
 

ﺑﮉﮬﮯ ﺍﺏ ﺑﺘﺎ، ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﻒ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ،
ﺍﺏ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﮔﺎ ؟
ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ
ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﻭﮞ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻮﺕ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﭽﯽ، ﭘﮭﺮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ، ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﭻ ﺟﺎﺅﮞ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﻧﮯ ﮔﺮﺯ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﮐﮩﺎ ﺑﮉﮬﮯ ﮐﯿﺴﯽ ﺧﺎﻡ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ
ﮐﯿﺴﯽ ﺑﮩﮑﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺑﮭﻼ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺱ ﻭﺍﺣﺪ ﻻﺷﺮﯾﮏ ﺭﺏ ﭘﺮ
ﺑﮯﺍﻧﺘﮩﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﺎ، ﻭﮦ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺫﺍﺕ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

Malik-Danish786
 

ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺐ ﺗﮏ
ﺑﭽﮯ ﮔﺎ ؟
ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺟﻼﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮔﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ
ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮﮐﺮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﮨﮯ، ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮔﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﺟﻼﺩ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﯽ
ﺳﯽ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﯽ ،
ﺭﮎ ﺟﺎﻭ! ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮ ،
ﺑﮉﮬﮯ ﺑﺘﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ،
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮒ ﺁﯾﺎ

Malik-Danish786
 

ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮔﺮﺯ ﻟﯿﮯ ﺍﭼﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ،
ﺟﻼﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﭘﮧ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻭﺍﺭ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ ، ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﻥ ﻣﯿﮟ
ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ،
ﺟﻼﺩ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﭼﻼ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺭﮮ ﺍﭼﮭﻞ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﺮﺭﮨﮯ
ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻧﯿﮟ ﮐﭧ
ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ
ﮨﻮﮔﯿﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﮧ ﺟﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺻﻒ
ﺁﺧﺮﯼ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﮭﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ؟ ﺍﺱ ﺑﯿﻮﻗﻮﻑ ﺑﮉﮬﮯ ﮐﻮ

Malik-Danish786
 

ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﻮﻻ، ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮﺩﻭ !
ﺍﻭﺭ ﺟﻼﺩ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ
ﮔﺌﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﮔﺌﯽ، ﺗﯿﺴﺮﮮ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﮐﯽ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮯﻗﺼﻮﺭ
ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻏﺮﯾﺐ ﻗﯿﺪﯼ ﺟﻮﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻔﯿﻞ، ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮈﺭ
ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﮐﺎ ﻣﮑﻤﻞ ﺻﻔﺎﯾﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ،
ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻒ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ

Malik-Danish786
 

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻇﺎﻟﻢ ﻭ ﻭﺣﺸﯽ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﮧ ﺷﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﺍ
ﺗﮭﺎ، ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺗﺎﺗﺎﺭﯼ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﯽ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﺗﮭﯿﮟ، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ
ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺗﮭﺎ، ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺻﻔﯿﮟ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﯽ
ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﺟﻨﮑﻮ ﮐﻮ ﺁﺝ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ،

Malik-Danish786
 

وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے چاروں سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھادی
https://www.dailyqudrat.pk/755640/

Malik-Danish786
 


کچھ بے نام رشتے اور تعلقات اتنے مضبوط اور خوبصورت ھوتے ھیں کہ رابطے کم اور دوریاں زیادہ ھونے کے باوجود ان رشتوں کی خوشبوں زندگی کے سفر کو معطر رکھتی ھے🌻🌼
کیونکہ
بعض اوقات ان بے نام رشتوں کے
بنا انسان نامکمل بھی رھتا ھے!!🌻
.a1 Mazeed Achi achi posts apni home sacreen py dekhny k Leyai mujy follow kr dein plzz

Malik-Danish786
 

’پروین بھابی سے پوچھو۔۔۔مشعل نے انہیں کال کر دی ہو گی۔‘‘
’’اب اچھا تھوڑی لگتا ہے۔وہ بھی کہے گی کہ بیٹی میری ہے اور فکر اسے ہے۔‘‘ میاں احسن اس بات پر ذرا سا ہنس دیئے۔
’’بات تو ٹھیک ہے بھئی۔۔۔‘‘
’’بات ٹھیک نہیں ہے۔۔۔وہ میری ہونے والی بہو ہے ،میرے شاہ میر کی منگیتر ہے۔۔۔خدا نخواستہ کچھ۔۔۔‘‘ وہ جانے کن خدشات میں گھری ہوئی تھیں۔
’’توبہ کرو عارفہ بیگم ،کیا فضول سوچتی رہتی ہو۔۔۔‘‘ اب انہوں نے ذرا سنجیدگی سے کہا۔
’’آپ تو جانتے ہیں عاطف اور عادلہ کی شادی کتنی مشکلوں سے ہوئی تھی۔مجھے میں اتنی ہمت نہیں کہ اب کوئی اور مسئلہ دیکھوں۔آپ سے کہا بھی تھا کہ مشعل اور شاہ میر کی شادی کر دیں۔‘‘ عارفہ نہیں چاہتی تھیں کہ مشعل اور شاہ میر مزید پڑھائی کریں

Malik-Danish786
 

’مشعل اب تک یونیورسٹی سے نہیں آئی اتنی دیر تو کبھی نہیں لگائی اس نے گھر آنے میں۔۔۔ ‘‘ شرم سے پھیلی لالی کہ جگہ اب پریشانی سے ابھری لکیروں نے لے لی تھی۔
’’کمال کرتی ہو عارفہ بیگم۔۔۔ابھی تو وہ تمہاری بہو باقاعدہ طور پر بنی نہیں اور تم نے اس کی پہراداری بھی شروع کر دی۔۔۔ ‘‘ وہ شاید مذاق کے موڈ میں تھے۔
’’ایسی بات نہیں ہے میاں صاحب۔۔۔‘‘
’’فکر نہ کرو۔۔۔آ جائے گی۔۔۔میں قمر ( ڈرائیور) کو کال کرتا ہوں۔ ‘‘انہوں نے ساتھ موجود سیل فون کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اس کی ضرورت نہیں ہے ،میں کال کر چکی ہوں۔۔۔قمر یونیورسٹی میں ہی گاڑی لیے کھڑا ہے اورمشعل ہی اب تک باہر نہیں آئی۔۔۔ ‘‘ میاں احسن نے سیل فون واپس رکھا اور سر سری سا کہا۔

Malik-Danish786
 

’’کیا ہوا عارفہ بیگم !کچھ الجھی ہوئی لگ رہی ہو؟‘‘
عارفہ نے حیرت سے میاں احسن کی طرف دیکھا۔میاں احسن اب بھی نظریں نیوز چینل پر ہی جمائے ہوئے بولے۔
’’اس میں حیرانی والی کیا بات ہے عارفہ بیگم۔برسوں کا ساتھ ہے ہمارا ، اب بھی اگر میں تمہارے پہلو بدلنے کے انداز سے دل کا حال نہ جانوں تو لعنت ہے ہمارے رشتے پر۔۔۔‘‘ یہ سن کر عارفہ مسکرا دیں۔اس عمر میں بھی شوہر کے منہ سے ایسی بات سن کر ان کے رخساروں پر شرم کی لالی سی پھیل گئی۔میاں احسن نے ریموٹ سے ٹی وی آف کیا اور عارفہ کی طرف توجہ مبذول کی۔’’اب بتاؤ بیگم صاحبہ کیا بات ہے ؟‘‘

Malik-Danish786
 

۔۔۔چاہے وقت گزاری ہی صحیح ،بس مجھے اپنی زندگی میں شامل کرو۔۔۔مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ‘‘۔اپنی بات کہہ کر وہ سیدھے کھڑا ہوا۔وہاں سے جانے کے لیے بڑھا پھرجاتے جاتے رکا۔ایک گہری نظر مشعل پر ڈالی اور پھر سے چل دیا۔جب تک وہ کیفے ٹیریا سے باہر نہیں چلا گیا مشعل اسی طرح ساکت اسے دیکھتی رہی۔اس کے جاتے ہی اپنے ماتھے کو سہلانے لگی۔اس نے یہ یقین کر لیا تھا کہ سنی کا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عارفہ بے چین سی میاں احسن کے قریب آ بیٹھیں جو کہ نیوز چینل پر نظریں مرکوز کیے بیٹھے تھے۔بنا عارفہ کی طرف نظر کیے وہ ان کی بے چینی بھانپ گئے تھے۔

Malik-Danish786
 

۔مشعل کا دل کیا یہی کپ اس سے چھین کر اس کے سر پر دے مارے یا پاس پڑی کتاب اس کے منہ پہ دے مارے ،بلکہ نہیں۔۔۔اس گھٹیا انسان کے سر پر تو یہ میز ہی اٹھا کر مار دے۔
’’disgusting‘‘تنے ہوئے اعصاب سے وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔و ہ اب بڑی شان سے کھڑا ہوا۔مشعل کی جانب جھک کر میز پر دونوں ہاتھ رکھے اور اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
’’تمہارے پاس چوائس ہے مشعل۔۔۔جو چاہے رشتہ رکھ لو مجھ سے۔۔۔محبت ،دوستی،دشمنی۔۔۔کچھ بھی

Malik-Danish786
 

’’تم۔۔۔‘‘ اس نے انگلی اٹھا کر اسے جیسے کوئی دھمکی دینا چاہی تھی۔وہ اس کے غصے سے لال پیلے ہوتے چہرے سے حظ اٹھانے لگا۔
’’دشمنی کرنا چاہتی ہو۔۔۔وہ بھی قبول ہے مجھے۔۔۔‘‘
مشعل نے جو انگلی اسے دھمکانے کے لیے اٹھائی تھی فٹ سے نیچے کر لی یعنی کے اس کی دھمکی ،غصہ ،سب بے سود تھا۔اسے تو دشمنی بھی قبول تھی۔اس نے مشعل کے چائے والے خالی کپ کو اٹھایاجس میں ایک آخری گھونٹ بچا ہوا تھا۔وہ مسکرایا،پھر سے کرسی سے ٹیک لگائی ،چیئرز کے انداز میں کپ ہوا میں مشعل کی طرف اٹھایا پھر آنکھیں بند کرتے ہوئے کپ کو منہ سے لگایا اور وہ بچا ہوا آخری گھونٹ پی لیا

Malik-Danish786
 

’تو پھر مجھ سے محبت ہی کر لو۔۔۔‘‘ وہ کچھ ڈھیٹ سا بنتا ہوا مسکرا رہا تھا۔مشعل کے دماغ کی رگوں میں خون کھولنے لگا تھا۔شادی نہ صحیح تو محبت۔کوئی کھیل تماشہ تھا کیا ؟
’’میں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ ‘‘ اس بار اس نے اپنا پچھلا جواب ہی پہلے سے بھی زیادہ زور دے کر کہا تھا۔
’’تو صرف دوستی ہی کر لو۔۔۔‘‘ وہ بڑے رسان سے ڈھیٹائی کی حدیں پار کر رہا تھا۔مشعل کا دماغ بھک سے اڑا۔سمجھتا کیا تھا وہ خود کو۔۔۔اور مشعل کو؟

Malik-Danish786
 

۔مشعل نے کپ کو ذرا سا پٹخ کر میز پر رکھا اور گلہ ذرا سا کھنکار کر کہا۔’’ بکو کیا تکلیف ہے ؟‘‘سنی اس کے انداز سے محظوظ ہوتا ہوا میز پر کہنی رکھتا ہوا اس کی طرف کچھ جھکا۔وہ فاصلے پہ ہونے کے باوجود بے اختیار پیچھے کو ہوئی۔
’’شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔۔۔‘‘ مشعل نے بکنے کو کہا تھا سو اس نے بھی بک دیا۔کم از کم مشعل کو تو اس وقت ایسا ہی لگا کہ وہ بک رہا ہے۔
’’میں نہیں کرنا چاہتی۔۔۔‘‘ اس نے لفظوں پہ زور دے کر اس کی آنکھوں میں مار ڈالنے والے انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔

Malik-Danish786
 

’’تمہارا مسئلہ کیا ہے سنی؟ ‘‘ اس نے زچ ہو کر میز پر ذرا سی دھپ مارتے ہوئے کہا۔وہ بھی اس کے مقابل بیٹھ چکا تھا۔ مشعل بے بسی اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے اسے دیکھ رہی تھی۔’’پہلے اپنی چائے پیو۔۔۔‘‘ اس نے مشعل کی طرف کپ کو ذرا سا سرکاتے ہوئے کہا۔مشعل نے حیرت سے ماتھے پہ بل ڈالے۔اس کا راستہ روک کر ،یوں کھلے عام تنگ کر نے کے بعد وہ اسے چائے پینے کا کہہ رہا تھا۔خیر اس کی بات ماننے کے سو ا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔چائے بھی کچھ ٹھنڈی ہو چکی تھی اس نے ایک ہی گھونٹ میں کپ خالی کر دیا۔سنی کرسی پہ ٹیک لگائے سینے پہ بازو لپیٹے اسے مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔