یوں ہی بے سبّب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اُسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا، جو گلے مِلو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہےذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھُلا دیا اسے بھُولنے کی دُعا کرو
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں، یہ محبّتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سُنا کرو، جو سُنا نہیں وہ کہا کرو
ھم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی،
کس نے توڑا دل ھمارا یہ کہانی پھر سہی.
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے،
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی.
نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں،
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی.
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی،
تیر پہلا کس نے مارا، یہ کہانی پھر سہی.
کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں،
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی
ایک مدت کی ریاضت سے کمائے ہوئے لوگ
کیسے بچھڑے ہیں مرے دل میں سمائے ہوئے لوگ....
تلخ گوئی سے ہماری تُو پریشان نہ ہو
ہم ہیں دنیا کے مصائب کے ستائے ہوئے لوگ......
اس زمانے میں مرے یار کہاں ملتے ہیں
اپنے دامن میں محبت کو بسائے ہوئے لوگ......
تجھ کو اے شخص کبھی زیست کی تنہائی میں
یاد آئیں گے ہم عجلت میں گنوائے ہوئے لوگ
خفاہونا،،،،،،،منالینا
یہ صدیوں سے روایت ہے ۔۔۔۔
محبت کی علامت ہے ۔۔۔۔
گلےشکوےکرو مجھ سے ۔۔۔۔
تمہیں اس کی اجازت ہے ۔۔۔۔
مگر یہ یادرکھنا تم ۔۔۔۔
کبھی ایسا بھی ہوتاہے ۔۔۔۔
ہوائیں رخ بدلتی ہیں ۔۔۔۔
خطائیں ہوبھی جاتی ہیں ۔۔۔۔
خفا ہونا بھی ممکن ہے ۔۔۔۔
مگر یوں ہاتھ سے دامن ۔۔۔۔
چھوڑا نہیں کرتے ۔۔۔۔
ہمیشہ یاد رکھنا کہ ۔۔۔۔
ساتھ چھوڑا نہیں کرتے۔۔۔
درد مندوں سے نہ پوچھو کہ کدھر بیٹھ گئے
تیری مجلس میں غنیمت ہے جدھر بیٹھ گئے
ہے غرض دید سے، یاں کام تکلّف سے نہیں
خواہ اِدھر بیٹھ گئے، خواہ اُدھر بیٹھ گئے
دیکھا ہووے گا مرے اشک کا طوفاں تم نے
لاکھ دیوار گِرے، سینکڑوں گھر بیٹھ گئے
کس نظر ناز نے اس باز کو بخشی پرواز
سینکڑوں مُرغ ہوا پھاند کے پر بیٹھ گئے
کم ہے آواز ترے کوچہ کے باشندوں کی
نالہ کرنے سے گلے ان کے مگر بیٹھ گئے
مفت اٹھنے کے نہیں یار کے کوچہ سے فقیر
جب کہ بستر کو جما، کھول کمر بیٹھ گئے
تمہاری تلخ لہجے سے ستایاں ھوا لڑکا
....
گھر کے ہر فرد سے بیکار میں لڑ پڑتا ہے
یہ الگ بات ہے کہ تعمیر نہ ھونے پائیں۔۔
...
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
عشق مجھ سے نہیں وحشت ہی سہی
۔۔۔۔۔۔
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی
تھک گئے ہونٹ تیرا نام بھی لیتے لیتے
ایک ہی لفظ کی تکرار کہاں تک جاتی
تو بہت دور،بہت دور گیا تھا مجھ سے
میری آواز میرے یار کہاں تک جاتی
ہزار جامِ تصدق ,,, ھزار میخانے
...
نگاہِ یار کی لذت .... شراب کیا جانے.
میں کچھ قدیم چراغوں سے گفتگو کر لوں
....
تم اتنی دیر میں اس شہر کی ہوا لے لو۔
گنوا کے مُجھ کو...کسی عہدِ خوش گمانی میں ....,...
وہ شاید اب کوئی...........مُجھ سا تلاش کرتا ہے,,
دیکھو، مجھے اب میری جگہ سے نہ ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو مُمکن
لیکن اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
لوگ کہتے ہیں کہ درد اُٹھ کے بتا دیتا ہے
اب تو میں، یہ بھی اِشارا نہیں ہونے دوں گا
اے مِرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
🙏🙏🙏😇😇😇😇
تم کو دِقت ہے میرا ساتھ نبھانے پہ اگر
....
تم میرا درد نہیں اپنی سہولت دیکھو
میں نے کہا بھی تھا کہ یہاں سے نکل چلیں
.....
اے دل تیرے لحاظ میں مارا گیا ہوں میں
غم دے کر دلاسے کیسے
????
یہ تسلی یہ تماشے کیسے
بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص.....
تُو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
میں تھک کے گر نہ جاؤں کہیں راہِ حیات میں ....... آ۔۔....۔ اے خیالِ یار میری اُنگلیوں کو تھام
شمارِ گردشِ لیل و نہار کرتے ھُوئے...
گزر چلی ھے تیرا انتظار کرتے ھُوئے ...
خدا گواہ وہ آسُودگی نہیں پائی ...
تمہارے بعد کسی سے بھی پیار کرتے ھُوئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain