نہ کوئی عہد نبھائے نہ ہمنوائی کرے
...
اسے کہہ دو تسلی سے بے وفائی کرے
پھر یوں ہوا کہ بات جدائی پر آ گئی
خود کو تیرے مزاج میں ڈالا نہیں گیا
تو نے کہا تو تیری تمنا بھی چھوڑ دی
تیری کسی بھی بات کو ٹالا نہیں گیا
ہم سے بڑھائیے نہ راہ و رسم کہ ہم لوگ
مل کر کریں اداس بچھڑ کر کریں اداس
مجھے لہجوں کے بدلنے سے ہمیشہ خوف آتا ہے۔
کہ لہجے جب بدلتے ہیں کوئی اپنا نہیں رہتا۔
کوئی ایسا جو گھبرائے میری خاموشی سے
کسی کو سمجھ آئے میرے لہجے کا دکھ
تم سے اب نہیں سلجھیں گے ہم
لاؤ ہمیں ہمارے حوالے کر دو۔۔۔۔! 🥀♥️
کنارا کرکے رشتوں سے وفائیں ہار کر محسن !! محبت کی حقیقت کو جو اب سمجھے تو کیا سمجھے
وہ جو اک بات بہت تلخ کہی تھی اس نے
...
بات تو یاد نہیں یاد ہے لہجہ اس کا
قدم قدم پہ رُلایا مجھے مقدر نے
ہم اُن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو ..... نصیر توقع تھی جن سے ساتھ دینے کی
تلے ہیں وہی ہم پر انگلیاں اُٹھانے کو
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو۔
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو۔
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا۔
پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو۔
اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں۔
ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو
مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب
بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو
ہم درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو
وہ جب آئگا دیکھے گا تو مجھ سے پوچھے گا یہ کس کا ہجر ہے یہ کون کھا گیا تم کو
تم کو معلوم ہے یہ آخری نیندیں ہیں مری
وسعتِ خواب ذرا اور بڑھا سکتے ہو🙂
کب تقاضا ہے نبھانے کا مگر جاتے ہوئے
میرے اندر سے بھی کیا خود کو مٹا سکتے ہو
يہ تو رسمی سا بلاوا ہے، چلے جائيں گے
ہم سے ملنے کو، مگر وه کبھی بے تاب تو ہو"
یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے...
تمہارے بعد کے موسم فقط گزارے گئے...
میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے
میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر
ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے
اداسی نام ہے حضرت میرے قبیلے کا
میں مسکرایا تو مجرم پکارا جاؤں گا !!
ایسے ویسے، ویسے ،ایسے کیسے ہیں!
دیکھو ناں، یہ لوگ بھی کیسے کیسے ہیں!
کیا تم نے نزدیک سے دیکھی تنہائی؟
اس کے سارے روپ ہی میرے جیسے ہیں!
میں تو بھٌولے سے بھی توہینِ محبت، نہ کروں
خاک ہو جاؤں مگر تجھ سے شکایت نہ کروں
سر جھکانا مری فطرت نہیں قاتل سے کہو
اپنے طے کردہ اصولوں سے بغاوت نہ کروں
ان کا اصرار ہے حالٍ دلٍ مضطر ہو بیاں
اور میں آنکھ اٹھانے کی جسارت نہ کروں
ایک انساں جو میسر ہو خدایا مجھ کو
پھر دوبارہ میں کسی چیز کی حسرت نہ کروں
مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا
کمسن ہو تم حسین ہو تم دل ربا ہو تم
...
تم کو ستم روا ہے مگر اس قدر نہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain